Sunday 12 May 2013

وظائف




























الیکشن کمیشن کی بد انتظامیاں


الیکشن کے انعقادکے بعد جہاں جیتنے والی پارٹیاں اپنی جیت کا جشن منانے میں مصروف ہیں وہاں ہارنے والے اپنی ہار کا ماتم منا رہے ہیں ۔ لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا ایکشن ہوا لیکن اس سارے عمل میں کون تھا جو ہر کام میں پیش پیش تھا ؟؟؟ جی ہاں میں بات ہو رہی ہے ان اساتذہ کی جن سے پوچھے بغیر ان کی ڈیوٹیاں لگا دیں گئیں تھیں۔پولنگ کے عملے نے جس ثابت قدمی سے سخت ترین حالات کا سامنا کیا ان کی تعریف نہ کرنا ذیادتی ہو گی۔ ویسے تو ہم اساتذہ کو قوم کے معمار اور نجانے کیا کیا کہتے ہیں لیکن ان کی عزت کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو طرح طرح سے ذلیل کیا جاتا ہے۔ پریزائڈنگ آ فیسر کا گریڈ 18 تک ہوتا ہے پشاور میں پریزائڈنگ آفیسر اپنے عملے کے ساتھ صبح نو بجے چار بجے تک تپتی دھوپ میں خوار ہوتی رہیں۔ چار بجے ان کو سامان مہیا کیا گیا پشاور کے قیوم سٹیڈیم میں ان کے لیے پانی تک کا انتظام نہ تھا یہ سب ناقص انتظامات کی وجہ سے ہوا ۔الیکشن ڈیوٹیاں اسا تذہ کی مرضی کے خلاف لگی تھیں ایک تو ان سے پوچھے بغیر ان کی ڈیوٹیاں لگائیں گئیں پھر اگر ان میں کوئی بیمار تھا جیسے کسی اسسٹنٹ پریزاڈنگ نے بتایا کہ میری ڈیلیوری آج کل میں ہونے والی ہے دوران ڈیو ٹی (جو کہ صبح چھ بجے سے رات نو تک تھی)ں ہواگر مجھے کچھ ہو گیا تو پھر کیا ہو گا؟ جب یہی بات اس خاتون نے جب جج کے سامنے کی تو اس پر جج نے اطمنان سے جوا ب دیا کہ باہر ایمبولنس کھڑی ہوں گی کسی ایمرجنسی کی صورت میں آپ کو ہاسپٹل لے جائے گی لیکن آپ کی ڈیوٹی پھر بھی کینسل نہیں ہو سکتی۔الیکشن سے پہلے اساتذہ کو ٹریننگ کے لیے بلایا گیا تھا شدید گرمی میں خواتین دور دورسے اپنے اپنے ٹریننگ سنٹرز پہنچیں تقریبا پانچ گھنٹے کی ٹریننگ کے بعد ان کے ایک نمبر دو کمپنی کا بنایا ہوا بسکٹ کا پیکٹ ،دس روپے والا جوس کا ڈبہ ایک روپے والا سپاری کا پیکٹ اور ایک لیز کا دس روپے والا پیکٹ ملا ۔کیا اساتذہ کی یہی عزت تھی پھر اس پر ہی بس نہ کیا گیا بلکہ ہزاروں اساتذہ کا ووٹ اس ڈیوٹی کی وجہ سے ضائع ہو گیا کیونکہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرتے یا ڈیوٹی دیتے۔جب یہی سوال وہاں موجود ٹرینر سے کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ہماراووٹ دینے سے کیا کام؟ بس دعا کریں کہ ایک اچھی حکومت آئے اس کا جواب سب کو فرطہ حیرت میں ڈال گیا کہ کیا اساتذہ پاکستان کے شہری نہیں ؟ کیا ان کو ووٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ؟ الیکشن سے پہلے پولنگ عملے کے ووٹ کاسٹ کرنے کا ایک آرڈر آیا تھا مگر وہ بھی ننانوے فیصد کو نہیں ملا۔اکثر پولنگ سٹیشنز پر پولیس عملہ ناکافی تھا۔خواتین کے پولنگ سٹیشنز پر مرد  سیکیورٹی اہلکار تعینات تھے۔۔ پولنگ عملے کے لیے صبح چھ سے رات نو تک پانی تک کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا جبکہ رش اتنا تھا کہ پولنگ سٹاف کو سر اٹھانے کی فرصت نہ تھی۔ووٹر لسٹوں میں بھی کچھ ووٹرز کے ناموں کا غلط اندراج تھا جبکہ کچھ کا شناختی کارڈ نمبر غلط تھا اسی طرح کچھ ووٹرز شناختی کارڈ کی کاپی لائے تھے جب ان کو اس کاپی پر ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت نہ دی گئی تو انہوں نے شدید احتجاج کیا پولنگ اسٹاف کے ساتھ تلخ کلامی کی اور باہرجا کر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ ان کو ان کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔اکثر پولنگ سٹیشنز پر فرنیچر ناکافی تھا اگر تھا بھی تو بچوں کے ڈیسک بینج تھے جن پر پندرہ گھنٹے بیٹھنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن سلام میرے پیارے پشاور کے اساتذہ کو جنہوں کے یہ سب کر کے دکھایا۔مجھے ایک خاتون کی بات پر پر حیرت ہوئی جب اس نے کہا کہ اس ڈیوٹی کے لئے اسسٹنٹ پریزاڈنگ اور پولنگ آفیسرز کو بڑی بھاری رقمیں ملی ہیں ۔جبکہ سچ تو یہ تھا کہ تین دن کی سخت ڈیوٹی کے بعد انکو صرف تیرہ سو روپے ملے ۔دعا ہےکہ اللہ پاکستان پر چھائے بدامنی کے بادل دور کرے، اور آنے والی نئی حکومت پاکستان کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرے