Thursday 9 January 2014

سورج ایک روز بجھ جائے گا


قرآن اور سائنس



سورج ایک روز بجھ جائے گا

سورج کی روشنی ایک کیمیائی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہےجو اس کی سطح پر جاری ہےاور گزشتہ 5 بلین سالوں سے جاری ہے۔مستقبل میں یہ کسی وقت کسی نقطے پہ پہنچ کے ختم ہوجائے گا۔ایسا اس وقت ہوگا جب سورج پوری طرح بجھ جائے گا۔اس کے بجھنے سے روئے زمین پر تمام جاندار ختم ہوجائیں گے۔ان کے چراغ حیات بجھ جائیں گے۔سورج کے وجود کی بے ثباتی کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

"اور سورج کے لیے جو مقررہ راہ ہےوہ اسی پر چلتا رہتا ہے۔
یہ ہے مقرر کردہ غالب ، باعلم اللہ تعالیٰ کا"
(سورہ یٰسین آیت 38)

عربی لفظ جو یہاں استعمال ہوا ہے وہ "مُسْتَــقَرٍّ"ہے۔جس کا مطلب ہے مقام یا وقت جو مقررہ ہے۔چنانچہ قرآن کہتا ہے کہ سورج ایک مقام مقررہ کی طرف دوڑ رہا ہے اور اس کی یہ دوڑ اس وقت تک کے لیے ہوگی جس کا تعین خالق کائنات نے پہلے سے کررکھا ہے۔یعنی اس معینہ اور مقررہ وقت کے پہنچتے ہی سورج ختم ہوجائے گا ، بجھ جائے گا۔

سورج ایک روز بجھ جائے گا


قرآن اور سائنس


سورج ایک روز بجھ جائے گا


وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو اسی نے کام پر لگا دیا ہے۔
"ہر ایک میعاد معین پر چل رہا ہے "
یہی ہے اللہ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے۔
(سورہ فاطر آیت 13)

نہایت اچھی تدبیر سے اس نے آسمان اور زمین کو بنایا وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے اور اس نے سورج چاند کو کام پر لگا رکھا ہے۔"ہر ایک مقررہ مدت تک چل رہا ہے" یقین مانو کہ وہی زبردست اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔
(سورہ الزمر آیت 5)

اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وہ عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے (١) اسی نے سورج اور چاند کو ما تحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے ۔
(سورہ الرعد آیت 2)

جاری ہے ان شاء اللہ

*************

خطباتِ غزالی

بنی اسرائیل میں ایک شخص کا گزر ریت کے ٹیلے سے ہوا۔قحط کا زمانہ تھا لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔وہ اپنے دل میں سوچنے لگا کہ کاش یہ ریت کا ٹیلا اناج بن جائے اور میں لوگوں میں تقسیم کر دوں۔
اللہ پاک نے اسی وقت اس زمانے کے نبی پر وحی نازل فرمائی کہ اللہ پاک نے تمہاری خٰرات قبول فرما لی ہے۔تمہاری نیک نیتی کی قدر فرمائی اور تمہیں اس قدر ثواب دے دیا ہے جتنا اس ریت کے ٹیلے کے برابر اناج تقسیم کرنے پر ملتا ہے۔

خطباتِ غزالی از امام غزالی رحمة اللہ علیہ

حقوق

و عورتیں اسلام پہ مکمل طور پر عمل کرتی ہیں انہوں نے کبھی اپنے حقوق کی بات نہیں کی ؟ کیوں کے اسلام اُنہیں مکمل حقوق مہیا کرتا ہے . اور جو اسلام سے دور ہیں وہ عورتیں ہر جگہ اپنے حقوق کی آواز بلند کرتی ہیں ، پِھر بھی وہ اپنے حقوق سے محروم ہیں ان سے التجا ہے اسلام کے قبول کر کے اسلام پہ عمل کریں کیوں اسلام آپ کو مکمل تحفظ دیتا ہے .

پھیلتی ہوئی کائنات

پھیلتی ہوئی کائنات

کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں فلکیاتی حقائق کے بارے میں ذکر اس لیے حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ عرب فلکیات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھے۔ان کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ عرب فلکیات میں ترقی یافتہ تھے۔مگر ان لوگوں کو اس بات کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ جس زمانے میں عربوں نے علم فلکیات میں ترقی کی قرآن اس سےصدیوں پہلے نازل ہو چکا تھا۔مزید یہ کہ سابقہ اقساط میں ب
یان کیے گئے حقائق مثلاً بگ بینگ کے بارے میں تو عرب سائنسی میدان میں ترقی یافتہ ہونے کے باوجود بھی نہ جانتے تھے۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں جن سائنسی حقائق کا ذکر ہے وہ اس وجہ سےنہیں کہ عرب سائنس کے میدان میں بہت ترقی یافتہ تھے۔ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ عربں نے بھی قرآن سے راہنمائی حاصل کر کے علم فلکیات میں ترقی کی۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

ایٹم قابل تقسیم ہے


قرآن اور سائنس


ایٹم قابل تقسیم ہے

زمانہ قدیم میں "نظریہ ایٹامزم" کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔اسے دوردور تک پذیرائی ملی تھی۔یہ نظریہ یونانیوں نے دیا تھا بالخصوص ایک یونانی سکالر ڈیموکریٹس نےجو آج سے 230 صدیاں قبل گزرا ہے۔ڈیموکریٹس اور اس کے بعد آنے والی سائنسدانوں کا خیال تھا کہ مادی کی سب سے چھوٹی اکائی ایٹم یا ذرے کا مطلب بھی زیادہ تر ایٹم ہی لیا جاتا ہے۔دور حاضر کی جدید سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ ایٹم کے بھی ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔بیسویں صدی میں یہ بات سامنے آئی کہ ایٹم کو بھی مزید تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ آج سے 1400 سال قبل یہ نظریہ عربوں کو بھی عجیب ہی لگتا۔ذرہ آخری حد ہے اس کے مزید ٹکڑے نہیں ہوسکتے یہ نظریہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔مگر قرآن نے اس نظریہ کو 1400 سال قبل ہی مسترد کر دیا تھا :
"کفار کہتے ہیں ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ آپ کہہ دیجئے! مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے وہ یقیناً تم پر آئے گی ۔ اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہرچیز کھلی کتاب میں موجود ہے"
(سورہ سبأ آیت نمبر 3)
اور آپ کسی حال میں ہوں آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے۔
(سورہ یونس آیت 61)
اس آیت میں اللہ کے عالم الغیب ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے۔وہ تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے چھپی ہوئی کا بھی اور جو ظاہر ہیں ان کا بھی۔مزید بتایا گیا کہ اللہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزکا بھی علم رکھتا ہے۔اسے ذرےذرے کا علم ہے اور ذرے سے چھوٹی شے کا بھی۔اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ ذرے سے بھی چھوٹی چیز ہوسکتی ہے۔

آبی چکر


قرآن اور سائنس

آبی چکر

یہ 1580 کی بات ہے جب برنارڈ پالسی نے آج کے آبی چکر کا کے تصور کا پہلی بار ذکر کیا تھا۔اس نے بتایا تھا کہ پانی کس طرح بخارات بن کر سمندروں سے اوپر اٹھتا ہے۔اور پھر ٹھنڈا ہوکے بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔یہ بادل فضا میں بلند ہوکر کثیف شکل اختیار کر کے بارش کی صورت میں زمین پر برستے ہیں۔یہی پانی جھیلوں ندیوں کی صورت میں بہتا ہےاور پھر سمندروں میں لوٹ جاتا ہے۔یوں ایک مسلسل آبی چکر وجود میں آتا ہے۔
ساتویں صدی قبل مسیح میں میلٹس کے تھیلز نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہوائیں سمندروں کے پانی کو اٹھائے پھرتی ہیں۔اور پھر یہی پانی بارش کی شکل میں برس جاتا ہے.
پرانے زمانے میں لوگوں کو یہ علم نہیں تھا کہ زیرزمین پانی کہاں سے آتا ہے۔ان کا خیال تھا کہ سمندروں کا پانی ہواؤں کے زیر اثر زمین میں دھنس جاتا ہے۔ان کا یہ خیال بھی تھا کہ یہی پانی کسی خفیہ راستے سے یا گہری خلیج سے سمندروں میں پہنچ جاتا تھا۔یہ راستہ سمندروں سے جڑاہوا تھا اوراسے افلاطون کے زمانے میں ٹارٹرس کہتے تھے۔اٹھارہویں صدی کے عظیم مفکر ڈیکارٹس نے بھی اسی نظریے سے اتفاق کیا تھا۔پھر انیسویں صدی آئی اور اب تک ارسطو کا نظریہ رائج تھا۔اس نظریے کے مطابق پانی ٹھنڈی کوہسانی غاروں میں کثیف شکل اختیار کر لیتا تھا۔پھر یہ زیر زمین جھیلوں میں چلاجاتا تھا۔جہاں سے چشمے پھوٹتے تھے۔

۔آج ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ بارش کا وہ پانی جو دراڑوں کے زریعے زیرزمین چلاجاتا ہے وہ زیرزمین پانی کا سبب بنتا ہے۔
قرآن کی آیات دیکھیں :

"کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے پھر اسی کے ذریعے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ میں دیکھتے ہیں پھر انہیں ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اس میں عقلمندوں کیلئے بہت زیادہ نصیحت ہے۔"
(سورہ الزمر آیت 21)

ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں اور ہم اس کے لے جانے پر یقیناً قادر ہیں۔
(سورہ المومنون آیت 18)

آج سے 1400 سال پہلے کی کوئی کتاب آبی چکر کی ایسی صحیح صحیح تفصیل پیش نہیں کرتی۔
کیا اسے محض اتفاق کہا جاسکتا ہے؟ ہرگز ہرگز نہیں بلکہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کے خالق نے اپنے اس قرآن میں اپنی نشانیاں کھول کھول کے بیان کردی ہیں اگر کوئی ہدایت پانے والا ہو تو۔

بادلوں کو بارآور کرتی ہوئی ہوائیں


قرآن اور سائنس

بادلوں کو بارآور کرتی ہوئی ہوائیں

"اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں پھر آسمان سے پانی برسا کر وہ تمہیں پلاتے ہیں
اور تم اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں ہو ۔"
(سورہ الحجر آیت 22)

یہاں پہ جو عربی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "لوا قح" جو کہ جمع ہے " یقح " کی۔جس کا مطلب ہے "بارآور کرنا"۔یہاں پہ بارآور کرنے کا مطلب سیاق و سباق کے حوالے سے یہ بنتا ہے کہ ہوا بادلوں کو دھکیلتی ہے جس سے ان کی کثافت میں اضافہ ہوتا ہےجس سے بجلی کی چمک پیدا ہوتی ہےاور بارش برستی ہے۔
قرآن کی مزید آیت پہ غور کریں:

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انھیں ملاتا ہے پھر انھیں تہ بہ تہ کر دیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں ان کے درمیان مینہ برستا ہے وہی آسمانوں کی جانب اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے، پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انھیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انھیں ہٹا دے بادلوں ہی سے نکلنے والی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ گویا اب آنکھوں کی روشنی لے چلی۔
(سورہ نور آیت 43)

اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے وہ ابر کو اٹھاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں اس کے اندر سے قطرے نکلتے ہیں اور جنہیں اللہ چاہتا ہے ان بندوں پر وہ پانی برساتا ہے تو وہ خوش خوش ہو جاتے ہیں۔
(سورہ روم آیت 48)

آبیات پہ دستیاب جدید اعدادوشمار اس موضوع پہ قرآنی تشریح اور بیان سے مکمل طور پہ اتفاق کرتے ہیں۔

جاری ہے ان شاء اللہ

**********

آبی چکر سے متعلق قرآنی آیات


قرآن اور سائنس


آبی چکر سے متعلق قرآنی آیات

اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ خوش کر دیتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی خشک سرزمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو ۔
(سورہ اعراف آیت 57)

اسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہ نکلے پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھی جھاگ کو اٹھا لیا اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا سازو سامان کے لئے اسی طرح کی جھاگ ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے اب جھاگ تو نکارہ ہو کر چلی جاتی ہےلیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے۔ وہ زمین میں ٹھری رہتی ہے اللہ تعالیٰ اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے ۔
(سورہ الرعد آیت 17)

اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے مردہ شہر کو زندہ کر دیں اور اسے ہم اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلاتے ہیں۔
(سورہ الفرقان آیت 48 اور 49)

اور اللہ ہی ہوائیں چلاتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ہم بادلوں کو خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں اور اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں۔ اس طرح دوبارہ جی اٹھنا (بھی) ہے۔
(سورہ فاطر آیت 9)

علم الارض


قرآن اور سائنس

علم الارض

پہاڑ زمین میں میخوں کی طرح گڑھے ہوئے ہیں۔

علم الارض میں تہہ بہ تہہ ہونے کا مظہر ایک حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔تہہ بہ تہہ ہونے کے عمل سے پہاڑ وجود میں آتے ہیں۔وہ سطح زمین جس کے اندر ہم زندہ ہیں ایک ٹھوس خول کی مانند ہےجبکہ گہرائی میں یہ گرم اور سیال مادے کی صورت میں ہے اور زمین کے اندرونی حصےمیں زندگی ممکن نہیں۔یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ پہاڑوں کی مضبوطی اور استحکام ان کے تہہ بہ تہہ ہونے میں مضمر ہے۔اس لئے کہ یہی تہیں پہاڑوں کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ماہر ارضیات ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا ریڈیس تین ہزار سات سو پچاس میل ہے۔اور زمین کا بالائی حصہ جسے کرسٹ کہتے ہیں جس پہ ہم لوگ موجود ہیں وہ بہت پتلا ہے صرف ایک سے 30 میل کے درمیان۔چونکہ یہ تہہ بہت ہی پتلی ہے اس لیے قوی امکان رہتا ہے کہ یہ ہلنے لگے گا۔پہاڑ زمین میں میخوں کا کام کرتے ہیں جو زمین کی بالائی سطح کو قائم رکھتے ہیں اور اسے استحکام دیتے ہیں۔قرآن نےا سے یوں بیان کیا ہے:

کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟
اور پہاڑوں کو میخیں (نہیں بنایا)؟
(سورہ نباء آیت 7)

عربی لفظ "اَوْتَادًا" کا مطلب ہے میخیں (کیل)۔ان میخوں جیسی جو خیمے نصب کرتے وقت استعمال کی جاتی ہیں۔یہ ارضی تہوں کے لیے گہری بنیادوں کا کام دیتی ہیں۔