Showing posts with label رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے معجزات مبارکہ. Show all posts
Showing posts with label رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے معجزات مبارکہ. Show all posts

Sunday, 27 October 2013

۔ نعلینِ پاک سے حصولِ برکت

۔ نعلینِ پاک سے حصولِ برکت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نعلین پاک استعمال فرمائے وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان نعلین پاک کو تبرکاً محفوظ رکھا اور ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے۔ ان بابرکت نعلین پاک کے حوالے سے چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اور ایک پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی نوش فرماتے تھے۔ نعلین پاک کے حوالے سے حضرت عیسیٰ بن طہمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
أخرج إلينا أنس نعلين جرداوين، لهما قبالان، فحدثني ثابت البُناني بعد عن أنس : أنهما نعلا النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2940
بخاري، الصحيح، 5 : 2200، کتاب اللباس، رقم : 5520
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 177، رقم : 6269 - 6270
عسقلاني، فتح الباري، 10 : 312، رقم : 5520
ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 83، باب في نعل رسول الله، رقم : 78
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں بغیر بال کے چمڑے کے دو نعلین مبارک نکال کر دکھائے جن کے دو تسمے تھے۔ بعد میں ثابت بُنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی کہ یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک ہیں۔‘‘
2۔ ایک دفعہ حضرت عبید بن جُریح نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے پوچھا کہ ’’میں آپ کو بالوں سے صاف کی ہوئی کھال کی جوتی پہنے ہوئے دیکھتا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
فإنی رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يلبس النعل التي ليس فيها شعر و يتوضأ فيها فأنا أحب أن ألبسها.
بخاري، الصحيح، 1 : 73، کتاب الوضوء، رقم : 164
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 84، باب فی نعل رسول اﷲ، رقم : 79
بخاري، الصحيح، 5 : 2199، کتاب اللباس، رقم : 5513
مسلم، الصحيح، 2 : 844، کتاب الحج، رقم : 1187
ابوداؤد، السنن، 2 : 150، کتاب المناسک، رقم : 1772
ابن حبان، الصحيح، 9 : 79 : رقم : 3763
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 287، رقم : 1272
بيهقي، السنن الکبریٰ، 5 : 37، رقم : 8762
شافعی، السنن المأثوره، 1 : 373، رقم : 503
مالک، المؤطا، 1 : 333، رقم : 733
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 66، 110، رقم : 5338، 5894
ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 74
زرقانی، شرح المؤطا، 2 : 331
مزی، تهذيب الکمال، 19 : 194، رقم : 3709
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنے ہوئے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں وضو فرماتے تھے لہٰذا میں ایسی جوتیاں پہننا پسند کرتا ہوں۔‘‘
3۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’المواہب اللدنیۃ (2 : 118۔119)‘ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمین میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں تکیہ، مسواک، نعلین اور وضو کے لیے پانی لے کر حاضر رہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعلین مبارک پہنا دیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اٹھا کر بغل میں دبالیتے تھے۔
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کی بابت ابوبکر احمد بن امام ابو محمد عبداللہ بن حسین قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
و نعلٍ خضَعْنا هيبةً لِبَهائِها
و إنَّا متی نَخضَع لها أبدًا نعلو
فَضَعْها علي أعلَی المَفارِق إنها
حقيقَتُهَا تاجٌ و صورتُها نعلٌ
(ایسے جوتے کہ جن کی بلند و بالا عظمت کو ہم تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اس عظمت کو تسلیم کر کے ہی ہم بلند ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انہیں بلند ترین جگہ پر رکھو کیونکہ درحقیقت یہ (سَر کا) تاج ہیں اگرچہ دیکھنے میں جوتے ہیں۔)
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 470
جب امام فخانی نے پہلی مرتبہ نعلین پاک دیکھے تو بے ساختہ پکار اٹھے :
وَ لو قيل للمجنونِ لَيلیٰ و وَصْلُها
تُريدُ أمِ الدنيا و ما فی زوايها
لقال غُبارُ من ترابِ نِعالها
أحبُّ إلی نفسی و الشفاء لِی بَلائها
(اور اگر لیلیٰ کے مجنوں سے پوچھا جاتا کہ تو لیلیٰ سے ملاقات اور دنیا کے مال و زر میں سے کس چیز کو ترجیح دے گا؟ تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا : ’’اس کی جوتیوں سے اٹھنے والی خاک مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے اور اس کی مصیبتیں رفع کرنے کے لئے سب سے بہترین علاج ہے۔‘‘)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ علماء متقدمین و متاخرین نے نعلینِ پاک کے متعلق متعدد کتب تالیف کی ہیں مثلاً :
  1. مولانا شہاب الدین احمد مقری نے ’فتح المتعال فی مدح النعال‘ نامی کتاب لکھی۔
  2. مولانا اشرف علی تھانوی نے ’نیل الشفاء بنعال المصطفے‘ نامی رسالہ لکھا جو کہ ان کی کتاب ’زاد السعید‘ میں پایا جاتا ہے۔
  3. مولانا محمد زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں :
’’نعل شریف کے برکات و فضائل مولانا اشرف علی تھانوی کے رسالہ ’زاد السعید‘ کے آخر میں مفصل مذکور ہیں جس کو تفصیل جاننا مقصود ہو، اس میں دیکھ لے۔ مختصر یہ کہ اس کے خواص بے انتہا ہیں، علماء نے بارہا تجربے کئے ہیں۔ اسے اپنے پاس رکھنے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے، ظالموں سے نجات اور لوگوں میں ہر دلعزیزی حاصل ہوتی ہے، غرض اس کے توسل سے ہر مقصد میں کامیابی ہوتی ہے، طریقِ توسل بھی اسی میں مذکور ہے۔‘‘
نقشِ نعلین پاک کی آزمائی ہوئی فوائد و برکات میں سے یہ بھی ہے کہ جو شخص اس کو حصولِ برکت کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھے تو اس کی برکت سے وہ شخص ظالم کے ظلم سے، دشمنوں کے غلبہ سے، شیاطین کے شر اورہر حاسد کی نظرِ بد سے حفاظت میں رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی حاملہ عورت شدت دردِ زہ میں اس کو اپنے دائیں پہلو پر رکھے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و مشیت سے اس خاتون پر آسانی فرمائے گا۔ اس نقش پاک کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ نظرِ بد اور جادو ٹونے سے آدمی امان میں رہتا ہے۔
نقشِ نعلین پاک کے حوالے سے امام ابن فہد مکی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ کی ایک کثیر تعداد نے اپنا اپنا یہ تجربہ بیان کیا کہ یہ جس لشکر میں ہو گا وہ فتح یاب ہو گا جس قافلے میں ہو گا وہ بحفاظت اپنی منزل پر پہنچے گا، جس کشتی میں ہو گا وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی، جس گھر میں ہو گا وہ جلنے سے محفوظ رہے گا، جس مال و متاع میں ہو گا، وہ چوری سے محفوظ رہے گا اور کسی بھی حاجت کے لئے صاحبِ نعلین (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توسل کیا جائے تو وہ پوری ہو کر رہے گی اور اس توسل سے ہر تنگی فراخی میں تبدیل ہو گی۔
مصر کے ایک فاضل ادیب علامہ شرف الدین طنوبی رحمۃ اللہ علیہ نے نقش نعلین پاک کے فوائد و برکات کا تذکرہ بڑے ہی محبت بھرے اندازکے ساتھ اپنے ان اشعار میں کیا ہے۔
يا عاشقاً نعل الحبيب وما رأی
تمثالها هنيت بالتمثال
’’اے عاشقِ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے نعل حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کا نقشِ پاک مبارک ہو۔‘‘
ضعه علی خديک ثم علی الحشا
و عليه و إلی الثمک المتول
’’(اے عاشق) اسے اپنے رخسار پر رکھ پھر اسے اپنے پہلو پر رکھ اور اسے اپنے چہرے اور (آنکھوں پر) لگا کر (اظہارِ محبت و عقیدت کر)‘‘
واعکف عليه عسی تفوز بيُمنه
فالسر قد يسری إلی الأشکال
’’نقشِ نعل پاک کے ساتھ تعلق کو پختہ کر یقینا اس کی برکت سے تجھے کامیابی حاصل ہو گی اور خوش ہو جا کہ اس کے ذریعہ تیری مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔‘‘
واجعل جبينک فوقه متبرکا
تحوی الفخار و غاية الأمال
’’اپنی جبیں نیاز کو حصول برکت کے لئے نقش نعلین پاک پر جھکا دو، یہی تیرے لئے باعث افتخار ہے اور تمام امیدوں کا بر آنا اس میں پنہاں ہے۔‘‘
واذکر حبيبک إذ بدت آثاره
وکأنه بذل العلی بوصال
’’اپنے محبوب (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو یاد کر جب تو اُن کے آثار کو پائے گویا ان آثار کو پانا ہی بلند مرتبہ اور وصالِ (حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘
إن غاب عنک ولو تعاين شکلها
فاعطف علی تمثالها المتعال
’’اگر تیرے پاس نعلینِ پاک نہ ہو تو اس کے نقش کا تصور کر سکے تو (یہ تمہارے لئے بہتر ہے، لہٰذا) تو اس کے عظیم نقش سے محبت کا اظہار کر۔‘‘
أکرم بتمثال تزايد يُمنه
روت الثقات له جميل فعال
’’نعلین پاک کے نقش کے ساتھ اظہارِ محبت کر اس سے برکات میں اضافہ ہو گا اور مستند علماء نے بیان کیا ہے کہ اس کے کئی فوائد ہیں۔‘‘
إن أمسکته حامل بيمينها
رأت الخلاص به و حسن خصال
’’اگر نعلین پاک کا نقش کوئی حاملہ عورت اپنے دائیں پہلو پر رکھے تو اس سے اس کی تکلیف دور ہوجائے گی اور نیک خصلت والا بچہ پیدا ہو گا۔‘‘
أو من به داء لأصبح ناقها
من ضر أوجاع ومن أوجال
’’اسی طرح اگر کوئی خاتون کسی بیماری میں مبتلا ہو تو اس کے صدقے سے اس کا درد اور بے چینی دور ہو جائے گی۔‘‘
أو کان فی جيش لأصبح ظاهرا
أو منزل لنجا من الإشعال
’’اور اس طرح اگر وہ نقش کسی لشکر کے پاس ہو تو وہ (دشمن پر) غالب آ جائے گا اور اگر یہی نقش کسی گھر میں ہو تو وہ گھر آگ لگنے سے محفوظ رہے گا۔‘‘
وبه الأمان من العدو بنظرة
والسحر والشيطان ذی الإضلال
’’اور یہی نقش دشمن، نظرِبد، جادو اور گمراہ کرنے والے شیطان سے محفوظ رہنے کا ذریعہ بنتا ہے۔‘‘
والأمن من غرق ومن باغ ومن
کيد الحسود و سارق ختال
’’اور اسی کی برکت سے انسان ڈوبنے سے، ظالم کے ظلم سے، حاسد کے حسد اور چور کے فریب سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘
فيه تمسک بالحبيب المصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم
فعسی به تنجو من الأهوال
’’ اس نقش کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق حبی مضبوط ہوتا ہے اور یقیناً اسی کے ذریعے خطرات سے نجات ملتی ہے۔‘‘
لا يستوی قلب المعذب فی الهوی
لواعج الأدواء و قلب الخال
’’محبت میں گرفتار دل جس کا علاج عشق کی دوا سے کیا جاتا ہے اور محبت سے خالی دل کبھی برابر نہیں ہوتے۔‘‘
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 404، 405
برکاتِ نعلینِ پاک کے حوالے سے بعض واقعات و مشاہدات جن کو امام مقری نے اپنی کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ میں بیان کیا ہے، درج ذیل ہیں :

1۔ شدید درد کا ازالہ

ابو جعفر احمد بن عبدالمجید جو کہ بہت بڑے عالم با عمل اور متقی و پرہیزگار شخص تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک طالب علم کو نعلین پاک کا نقش بنوا دیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نے گذشتہ رات اس نقش کی ایک حیران کن برکت کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کونسی ایسی عجیب برکت دیکھی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ میری اہلیہ کو اچانک اتنا شدید درد ہوا کہ جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھی پس میں نے نعلین پاک کا یہ نقش اس کے درد والی جگہ پر رکھا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی :
’’اللّٰهُمَّ أرِنَا بَرکَة صاحب هٰذا النَعلِ‘‘
’’اے اللہ! آج ہم پر صاحبِ نعل (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی برکت و کرامت ظاہر فرمادے۔‘‘
اس طالب علم نے بیان کیا کہ پس اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے میری بیوی کو فوراً شفا عطا فرمائی۔
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 466، 467
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 469

2۔ مفتی محمد قصار المغیشی حادثہ میں محفوظ رہے

شہر فاس کے مفتی شیخ محمد قصار کے بچپن کا واقعہ ہے جس کو ثقہ اہل علم نے بیان کیا ہے : وہ یہ کہ بچپن میں مفتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب اپنے بعض رشتہ داروں کے ساتھ اپنے گھر کے نچلی منزل میں بیٹھے تھے۔ یہ بھی شہر فاس کی دیگر عام عمارتوں کی طرح ایک بڑی عمارت تھی جس کی بڑی بڑی دیواریں اور اونچے کمرے تھے۔ ان لوگوں کے سروں کے عین اوپر دیوار پر نقشِ نعلین پاک اس قدر بلندی پرلگا ہوا تھا کہ اگر کوئی شخص کھڑا ہو تو وہ سر کے برابر ہو۔ اللہ کی شان اوپر والی منزل نچلی منزل پر گر گئی اور پوری عمارت منہدم ہوگئی۔ لوگوں نے ملبے تلے دبے ہوئے لوگوں کی موت کا یقین کر لیا اور ایک دن سے زائد وہ ملبے تلے دے رہے۔ ایک دن کے بعد لوگ کفن دفن کی غرض سے ملبہ ہٹاتے ہٹاتے ان تک پہنچے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ نیچے دبے ہوئے جملہ افراد نقشِ نعلینِ پاک کی برکت سے زندہ و سلامت ہیں اور انہیں کوئی گزند تک نہیں پہنچی۔
یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کا صدقہ تھا کہ وہ اس جان لیوا حادثہ میں بال بال بچ گئے، ہوا یوں کہ جب اوپر والی دیوار گرگئی تو وہ ان پر مانند خیمہ ٹھہر گئی۔ دیوار کا اوپر والا حصہ اس جگہ سے جا لگا جس کے نیچے نعلین پاک تھا اور نچلا حصہ زمین میں کھڑا ہو گیا جس کے بعد مٹی پتھر وغیرہ پہاڑ کی طرح اوپر سے نیچے گرتے رہے، یہ لوگ اس کے نیچے محفوظ رہے۔ یوں اللہ سبحانہ و تعالی نے نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ان کو ہر قسم کی تکلیف اور نقصان سے اپنی حفاظت میں رکھا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال، 470، 471

3۔ شیخ عبدالخالق بن حب النبی کا مشاہدہ

1۔ شیخ عبدالخالق بن حب النبی مالکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سال نصف رمضان کو مجھے ایک پھوڑا نکل آیا اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا ہے اس کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف لاحق ہوئی۔ میں اس مرض کے ماہر اطباء اور جراح کے پاس گیا مگر کوئی بھی اس تکلیف کو سمجھ سکا اور نہ کوئی اس کا علاج تجویز کر سکا۔ مجھے شدت تکلیف نے بے چین کیا ہوا تھا۔ پھر جب اچانک مجھے اس نقشِ نعلِ پاک کے فضائل و برکات یاد آئے تو میں نے اس نقش کو جائے تکلیف پر رکھا اور دعا کی :
اللّٰهُمَّ إنِّی أسئلُکَ بِحَقّ نَبِيّکَ مُحَّمَد صلی الله عليه وآله وسلم مَن مشی بالنعل أن تُعَافِينی مِن هٰذا المرض يا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ.
’’اے اللہ! تجھ سے تیرے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ دیتے ہوئے سوال کرتا ہوں جو کہ اس نعل مبارک میں چلتے رہے ہیں جس کا یہ نقش ہے۔ اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے پروردگار! مجھے اس بیماری سے شفا عطا فرما۔‘‘
وہ فرماتے ہیں خدا کی قسم مجھے ایک دن کے اندر ایسا افاقہ ہوا گویا کہ تکلیف تھی ہی نہیں۔‘‘
2۔ اسی طرح ان کی ایک بچی تھی جس کی آنکھیں ایسی خراب ہوئیں کہ اطباء اسکے علاج سے عاجز آگئے ایک دن اس بچی نے ان سے کہا : میں نے سنا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعل پاک کے نقش کے بہت زیادہ فوائد و برکات ہیں مجھے بھی لاکر دیں، پس انہوں نے اس کو نقش مبارک دیا، اس بچی نے نقش کو اپنے آنکھوں پر رکھا تو نقش نعلین پاک کی برکت سے اس کی آنکھوں کی بیماری ختم ہوگئی۔

4۔ امام مقری کا مشاہدہ

1۔ صاحب فتح المتعال امام مقری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس نقشِ پاک کی فوائد و برکات کا میں نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ ہوا یوں کہ میں ذیقعدہ شریف 1027ھجری کو غرب جزائر میں ایک بحری جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ دریا خوب طغیانی پر تھا۔ سیلاب کے ایک تیز ریلے کے ساتھ جہاز کے کئی تختے ٹوٹ گئے، ہم سب ہلاکت کے قریب پہنچ گئے اور تمام لوگ اپنی نجات سے مایوس ہوگئے اور موت کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے کہ میں نے جہاز کے کپتان کے پاس نقش نعلین بھیجا کہ اس کی برکت سے خیر کی امید رکھے چنانچہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہم سب پر کرم فرمایا اور ہمیں صحیح و سلامت پار لگا دیا اور اسے سمندری سفر کے ماہرین نے بڑی کرامت کی نشانی شمار کیا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 472
2۔ اسی سفر کے دوران راستے میں ایک مقام پر ڈاکوؤں کا قبضہ تھا جو لوگوں کو لوٹتے تھے ان کے پاس بہت سارا اسلحہ اور کثیر لوگ تھے۔ اللہ نے ہمیں اس نقشِ پاک کی برکت سے ان کی آنکھوں سے چھپائے رکھا اور ہم مدینہ منورہ میں صحیح سالم پہنچ گئے۔
3۔ اسی طرح ایک دن ہم دریا میں سفر پر تھے کہ سامنے ایک بہت بڑا پتھر ظاہر ہوا کہ اگر ہماری کشتی اس سے ٹکرا جاتی تو پاش پاش ہو جاتی۔ ہماری کشتی اس پہاڑی نما غار میں گھس گئی۔ اس پتھر نے ہمیں آگے پیچھے دائیں بائیں سے اس طرح گھیر لیا کہ اس پتھر اورہماری کشتی کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت دریا کی موجیں پورے جوبن پر تھیں۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ اب تو ہماری کشتی ضرور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تباہ ہو جائے گی۔ پس ہم نے نقش نعلین کے ساتھ توسل کیا تو اللہ نے ہمیں اس مشکل سے رہائی عطا فرمائی۔
4۔ اسی طرح مجھ سے ایک ثقہ شخص نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ اسے ایک شدید مرض لاحق ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ نقشِ نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرو، اس نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا اور وہ اس کی برکت سے شفایاب ہوگیا۔
5۔ اسی طرح یہ بھی مجھے بعض قابلِ اعتماد احباب نے بتایا کہ انہوں نے کئی دفعہ ایسے ممالک کا سفر کیا جن کے راستوں پر چوروں، رہزنوں کا ہر وقت خوف رہتا تھا اور عام طور پر ان کی لوٹ مار سے کوئی بھی مسافر نہیں بچتا تھا مگر چونکہ ان کے پاس نقشِ نعلینِ پاک تھا کئی مرتبہ ان کاسامنا چوروں کے ساتھ ہوا لیکن اس نقش کی برکت سے اللہ نے انہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 474 - 475
اس بحث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عشق و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اشیاء کی تعظیم و تکریم ہی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ جیسا کہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضور (ص)
تو پھر کہیں گے کہ ہاں، تاجدار ہم بھی ہیں

12۔ مستعمل پانی سے حصولِ برکت

حضرت ابو موسیٰ صروایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور بولا : اے محمد ! آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : ’’خوش ہو جاؤ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے مجھ سے بہت دفعہ کہا ہے : ’’خوش ہوجاؤ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم نے (خوشخبری) قبول کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اس میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ انور دھوئے اور اس میں کلی کی، پھرفرمایا :
إشربا منه، و أفرغا علیٰ وجوهکما و نحورکما، و أبشرا. فأخذا القدح ففعلا ما أمرهما به رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، فنادتهما أم سلمة رضي اﷲ عنها من وراء الستر : أفضِلا لأمکما مما فی إنائکما، فأفضلا لها منه طائفة.
مسلم، الصحيح، 4 : 1943، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2497
بخاري، الصحيح، 4 : 1573، کتاب المغازی، رقم : 4073
هندی، کنز العمال، 13 : 608، 609، رقم : 37556
عسقلانی، تغليق التعليق، 2 : 128
فاکهی، أخبار مکه، 5 : 64، رقم : 2845
ابويعلی، المسند، 13، 301، رقم : 7314
ابن حبان، الصحيح، 2 : 318، رقم : 558
ذهبی، سير أعلام النبلاء، 2 : 385
شوکانی، نیل الاوطار، 1 : 24
’’تم دونوں اس کو پی لو اور اپنے چہرے اور سینے پر مل لو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی : اس برتن میں جو بچا ہوا پانی ہے وہ اپنی ماں کے لئے بھی لاؤ پھر وہ اس میں سے کچھ پانی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے لئے بھی لے گئے۔‘‘

13۔ پیالہ مبارک سے حصولِ برکت

لبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس برتن کو مس کیا وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم ایسے برتنوں کو بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے اور پینے پلانے کے ایسے برتنوں کا استعمال باعث برکت و سعادت گردانتے تھے۔
1۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ایسے برتن میں پانی پلانے کی پیشکش کی کہ جس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا اور انہوں نے اس مبارک برتن کو اپنے پاس محفوظ کر لیا اور فرمایا :
ألا أسقيک فی قدح شرب النبی صلی الله عليه وآله وسلم فيه؟
بخاري، الصحيح، 5 : 2134، کتاب الأشربة، رقم : 5314
عسقلانی، تغليق التعليق، 5 : 32
’’کیا میں آپ کو اس پیالے میں (پانی) نہ پلاؤں جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا ہے؟‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسرے الفاظ اس طرح مروی ہیں کہ میں مدینہ پاک حاضر ہوا تو مجھے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور اس نے کہا :
انطلق إلی المنزل فأسقيک فی قدح شرب فيه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
بخاري، الصحيح، 6 : 2673، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم : 6910
بيهقي، السنن الکبری، 5 : 349، رقم : 10708
عسقلانی، فتح الباری، 7 : 131، رقم : 3603
عسقلانی، تغليق التعليق، 5 : 32
’’میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔‘‘
2۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
فأقبل النبی صلی الله عليه وآله وسلم يومئذ حتي جلس في سقيفة بني ساعدة هو و أصحابه ثم قال : اسقنا، يا سهل : فخرجت لهم بهذا القدح فأسقيتهم فيه. (قال أبو حازم : ) فأخرج لنا سهل ذلک القدح فشربنا منه. قال : ثم استوهبه عمر بن عبدالعزيز بعد ذلک، فوهبه له.
بخاري، الصحيح، 5 : 2134، کتاب الاشربة، رقم : 5314
مسلم، الصحيح، 3 : 1591، کتاب الأشربة، رقم : 2007
ابوعوانه، المسند، 5 : 136، رقم : 8125
بيهقي، السنن الکبري، 1 : 31، رقم : 123
روياني، المسند، 2 : 201، رقم : 1036
ابن جعد، المسند، 1 : 431، رقم : 2935
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 145، رقم : 5792
عسقلاني، فتح الباري، 10 : 99، رقم : 5314
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر حضرت سہل سے فرمایا : اے سہل! ہمیں پانی پلاؤ۔ پھر میں نے ان کے لیے یہ پیالا نکالا اور انہیں اس میں (پانی) پلایا۔ (ابو حازم نے کہا :) سہل نے ہمارے لیے وہ پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں پیا۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان کو دے دیا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پیالۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ پانی اپنے سروں اور چہروں پر انڈیلا
3۔ حضرت حجاج بن حسان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کنا عند أنس بن مالک، فدعا بإناء و فيه ثلاث ضباب حديد و حلقة من حديد، فأخرج من غلاف أسود و هو دون الربع و فوق نصف الربع، فأمر أنس بن مالک فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا علی رؤوسنا و وجوهنا و صلينا علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 187، رقم : 12971
ابن کثير، البديه والنهيه، 6 : 7
مقدسي، الآحاديث المختارة، 5 : 216، رقم : 1845
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔
’’ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے پیالۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاندی کے تار سے جوڑا

جب وہ مبارک پیالہ ٹوٹ گیا (جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی پیا تھا) جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھا تو اس کی مرمت کا انہوں نے جس قدر اہتمام کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب اشیاء کو کس قدر حرزجاں بنائے ہوئے تھے۔
4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
أن قدح النبی صلی الله عليه وآله وسلم انکسر فاتخذ مکان الشعب سلسلةً من فضة. قال عاصم : رأيتُ القدح و شربتُ فيه.
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2942
طبرانی، المعجم الاوسط، 8 : 87، رقم : 8050
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 29، رقم : 113 - 111
عسقلانی، تلخيص الجبير، 1 : 52
ملقن، خلاصة البدر المنير، 1 : 25
احمد بن علي، الفصل للوصل المدرج، 1 : 249
صنعاني، سبل السلام، 1 : 34
ابن قدامه، المغني، 1 : 59
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 84
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) نے اسے جوڑنے کے لئے عام چیز کی بجائے چاندی کے تار لگا دیئے۔ عاصم (راوی ) کہتے ہیں : خود میں نے اس پیالے کی زیارت کی ہے اور اس میں پیا ہے۔‘‘

14۔ مشکیزہ سے حصولِ برکت

1۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ مشکیزہ کا منہ حصول خیر و برکت کے لئے کاٹ کر محفوظ کیا۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی عمرہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم دخل عليها، و عندها قِربة معلقة فشرب منها و هو قائم، فقطعت فم القِربة تبتغي برکةَ موضع في رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
ابن ماجه، السنن، 2 : 1132، کتاب الأشربه، رقم : 3423
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 306، ابواب الأشربه، رقم : 1892
ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 174، باب صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 212
ابن حبان، الصحيح، 12 : 138، رقم : 5318
حميدي، المسند، 1 : 172، رقم : 354
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 15، رقم : 8
شيباني، الآحاد والمثاني، 6 : 138، رقم : 3365
بغوي، شرح السنه، 11 : 379، رقم : 3042
ابن ماجہ کی روایت کی سند صحیح ہے جبکہ امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ہاں تشریف لائے تو وہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پانی پیا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے، پس میں نے مشکیزے کا منہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ اقدس والی جگہ سے حصول برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أن النبي صلی الله عليه وآله وسلم دخل علي أم سليم، و في البيت قِربة معلقة، فشرب من فيها و هو قائم، قال : فقطعت أم سليم فم القربة فهو عندنا.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 119، رقم : 12209
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 431، رقم : 27468
ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 177، باب صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 215
طيالسي، المسند، 1 : 229، رقم : 1650
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 127، رقم : 307
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 204، رقم : 654
مقدسي، الآحاديث المختاره، 7 : 295، رقم : 2750
ابن جعد، المسند، 1 : 329، رقم : 2255
هيثمي، موارد الظمان، 1 : 333، رقم : 1372
ابن جارود، المنتقیٰ، 1 : 220، رقم : 868
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کے یہاں تشریف لائے تو ان کے گھر میں (پانی کا) ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشکیزہ سے کھڑے ہوئے پانی نوش فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نے اس مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا۔ پس وہ (اب بھی) ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘
حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں۔
ان دونوں صحابیات کا مشکیزے کے ٹکڑوں کو محفوظ کر لینا فقط حصولِ برکت کے لیے اس وجہ سے تھا کہ انہیں محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے مس کیا تھاجس سے یہ ٹکڑے عام ٹکڑوں سے ممتاز ہو گئے تھے، فقط اس لئے کہ دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سما جانے کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے خیر وبرکت کا باعث سمجھے جانے لگے۔

مس شدہ کپڑے سے حصولِ برکت

مس شدہ کپڑے سے حصولِ برکت

1۔ مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 256
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کرتہ عطا فرمانے کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوجائیں۔
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033، 3032
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ کپڑوں کو کفن بنایا
3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 454
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘
یعنی اس خوش بخت صحابی رضی اللہ عنہ کو ان کی خواہش کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک چادر میں کفن دے کر دفنایا گیا۔
4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم : 4715
5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘
ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48
6۔ حضرت عبداﷲ بن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو
دفنه النبی صلی الله عليه وآله وسلم في قميصه.
عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، 4 : 29، رقم : 4575
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے قمیص مبارک میں دفن کیا۔‘‘
ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لباس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی کہ نہ صرف دنیا میں لوگ اس کے اثر سے فیض یاب ہوتے رہے بلکہ بعد از وفات بھی اس کی برکات سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور رہے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لباس زیب تن فرمایا، نسبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے وہ بھی عام کپڑا تھا مگر جسد اطہر کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے وہ مشرف و متبرک ہوگیا۔ اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خواہش رکھتے تھے کہ انہیں کفن کے لئے کوئی ایسا کپڑا میسر آئے جس کی جسد اطہر کے ساتھ کچھ نہ کچھ نسبت ہو۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو ایسے با برکت کپڑے عنایت فرما کر خود اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ تبرکات صالحین سے برکت حاصل کرنا جائز اور مشروع ہے۔

لعابِ دہن سے حصولِ برکت

لعابِ دہن سے حصولِ برکت

مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کو دم فرماتے اور اپنا مبارک لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت سے زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے بیمار شخص کی تکلیف کی جگہ پر ملتے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کی شفایابی کی دعا فرماتے۔
1۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفایابی کے لئے یہ مبارک الفاظ دہراتے :
بِسم اﷲ، تُربةُ أرضِنا، بريقة بعضنا، يُشفَی سَقِيْمُنا، بِإذنِ رَبِّنا
’’اللہ کے نام سے شفا طلب کر رہا ہوں، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے بعض کا لعاب اﷲ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دیتا ہے۔
بخاری، الصحيح، 5 : 2168، کتاب الطب، رقم : 5413
مسلم، الصحيح، 4 : 1724، کتاب السلام، رقم : 2194
ابوداؤد، السنن، 4 : 12، کتاب الطب، رقم : 3895
ابن ماجه، السنن، 2 : 1163، کتاب الطب، رقم : 3521
نسائی، عمل اليوم والليلة، 1 : 559، رقم : 1023
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 93، رقم : 24661
حاکم، المستدرک، 4 : 457، رقم : 8266
ابن حبان، الصحيح، 7 : 238، رقم : 2973
ابویعلی، المسند، 8 : 22، رقم : 4527
بغوی، شرح السنة، 5 : 224، رقم : 1414
‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھٹی دلواتے

مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ملتی ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاہِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ دوجہانوں کے والی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہوتا۔
2۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما بیان کرتی ہیں :
أنها حَملتْ بعبد اﷲ بن الزبير، قالتْ : فخرجتُ و أنا مُتِمٌّ، فأتيتُ المدينةَ فنزلتُ بقُبَاء، فولدتهُ بقُباء، ثم أتيتُ به النبی صلی الله عليه وآله وسلم فوضَعتُه فی حِجرِه، ثم دعا بتمرة، فَمَضَغَهَا، ثم تَفَل فی فيه، فکان أوّلَ شئ دخل جوفَه ريقُ رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، ثم حَنَّکَه بتمرة، ثم دعاله و بَرَّکَ عليه.
بخاری، الصحيح، 3 : 1422، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3697
بخاری، الصحيح، 5 : 2081، کتاب العقيقة، رقم : 5152
مسلم، الصحيح، 3 : 1691، کتاب الآداب، رقم : 2146
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 347، رقم : 26983
حاکم، المستدرک، 3 : 632، رقم : 6330
بیهقی، السنن الکبری، 6 : 204، رقم : 11927
ابن ابی شيبه، المصنف، 5 : 37، رقم : 23483
ابن ابی شيبه، المصنف، 7 : 346، رقم : 36622
شیبانی، الآحاد والمثانی، 1 : 413، 412، رقم : 573 - 574 - 575
بخاری، التاريخ الکبير، 5 : 6، رقم : 9
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 1 : 764
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 906، رقم : 1535
ابن حبان، الثقات، 3 : 212، رقم : 707
ابونعيم، حلية الأولياء : 1 : 333 (ہشام بن عروہ اور فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے)
ابن حبان، مشاهير علماء الأمصار، 1 : 30، رقم : 154
’’کہ وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کے ساتھ حاملہ تھیں انہوں نے کہا : میں مکہ سے (ہجرت کے لئے) اس حالت میں نکلی کہ میرے وضع حمل کے دن پورے تھے میں مدینہ آئی اور قبا میں اتری اور وہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے پھر میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچہ کے منہ میں لعابِ دہن ڈال دیا اور جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر اس کے تالو میں کھجور لگا دی، اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔‘‘
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
ذهبتُ بِعبدِ اﷲ بن أبی طلحة الأنصاری إلی رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم حين وُلِدَ، و رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في عَبَاءَ ةٍ يَهْنأُ بَعيرًا له فقال : هل معکَ تمرٌ؟ فقلتُ : نعم، فناولتهُ تَمَراتٍ، فألقاهُنَّ في فيه فَلاکَهُنَّ، ثم فَغَرَفا الصَّبِیَّ فمَجَّه في فيه، فجعل الصبي يَتَلَمَّظُهُ، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : حُبُّ الأنصارِ التمر. و سماه عبدَ اﷲِ.
مسلم، الصحيح، 3 : 1689، کتاب الأداب : رقم : 2144
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 175، 212، 287، رقم : 12812، 13233، 14097
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 305
ابن حبان، الصحيح، 10 : 393، رقم : 4531
ابويعلي، المسند، 6 : 37، رقم : 3283
ابوداؤد، السنن، 4 : 288، کتاب الأدب، رقم : 4951
ابن سعد، الطبقات الکبری، 8 : 433
عبد بن حميد، المسند، 1 : 393، رقم : 1321
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 429، رقم : 1254
ابوعوانه، المسند، 5 : 240، رقم : 8550
’’جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چادر اوڑھے اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کا منہ کھول کر اسے بچہ کے منہ میں ڈال دیا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔ اور اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘

ناخن مبارک سے حصولِ برکت

ناخن مبارک سے حصولِ برکت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ منیٰ میں حصرت عبداﷲ بن زید کو اپنے موئے مبارک اور ناخن کٹوا کر عطا فرمائے جن کو انہوں نے بطور تبرک سنبھال کر رکھا۔ ان کے صاحبزادے حضرت محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :
فحلق رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم رأسه في ثوبه فأعطاه فقسم منه علي رجال و قلم أظفاره فأعطاه صاحبه.
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 42
ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 300، رقم : 2931
حاکم، المستدرک، 1 : 648، رقم : 1744
بيهقي، السنن الکبری، 1 : 25، رقم : 91
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 202، رقم : 1535
هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 19 (اس کے تمام راوي صحيح ہيں)
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ 3 : 536
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 69
مقدسي، الأحاديث المختارة، 9 : 384، رقم : 353
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ اور اس کے رجال مشہور و ثقہ ہیں۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر میں اپنا سر اقدس منڈوایا اور بال انہیں عطا کر دیئے جس میں سے کچھ انہوں نے لوگوں میں تقسیم کر دیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناخن مبارک کٹوائے اور وہ انہیں اور ان کے ساتھی کو عطا کر دیئے۔‘‘

قدمین شریفین کی برکات

قدمین شریفین کی برکات

جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنا قدمِ مبارک رکھ کر تعمیر کعبہ کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر گداز ہوا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ ربُ العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنّ النبی صلی الله عليه وآله وسلم کان إذا مشي علي الصخر غاصت قدماه فيه و أثرت.
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 482
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 27، رقم : 9
’’ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔‘‘
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ عرفہ سے تین میل دور مقام ذی المجاز میں تھے کہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا :
عطشتُ و ليس عندي ماءٌ، فنزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم و ضرب بقدمه الأرض، فخرج الماء، فقال : اشرب.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 152، 153
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 76
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 170
خفاجي، نسيم الرياض، 3 : 507
’’مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری سے اُترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے چچا جان!) پی لیں۔‘‘
جب اُنہوں نے پانی پی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنا قدمِ مبارک اُسی جگہ رکھا تو وہ جگہ باہم مل گئی اور پانی کا اِخراج بند ہو گیا۔
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی اور اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔ روایت کے الفاظ ہیں :
فضربنی برجله، و قال : ’’اللهم اشفه، اللهم عافه‘‘ فما اشتکيت وجعي ذالک بعد.
نسائي، السنن الکبریٰ، 6 : 261، رقم : 10897
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 560، ابواب الدعوات، رقم : 3564
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 83، 107
طيالسي، المسند، 1 : 21، رقم : 143
ابويعلي، المسند، 1 : 328، رقم : 409
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 7 : 357
’’پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا مبارک پاؤں مجھے مارا اور دعا فرمائی : اے اﷲ! اسے شفا دے اور صحت عطا کر۔ (اس کی برکت سے مجھے اسی وقت شفا ہو گئی اور) اس کے بعد میں کبھی بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوا۔‘‘
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ کر اپنی اُونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
والذی نفسی بيده لقد رأيتها تسبق القائد.
ابو عوانه، المسند، 3 : 45، رقم : 4145
بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 235، رقم : 14132
حاکم، المستدرک، 2 : 193، رقم : 2729
قسم اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔‘‘
5۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اُونٹ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر اپنے مبارک قدموں سے ٹھوکر لگائی تھی، جس کی برکت سے وہ تیز رفتار ہو گیا تھا۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :
فضربه برجله و دعا له، فسار سيراً لم يسرمثله.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 299
مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
نسائی، السنن، 7 : 297، کتاب البيوع، رقم : 4637
ابن حبان، 14 : 450، رقم : 6519
بيهقی، السنن الکبریٰ، 5 : 337، رقم : 10617
’’تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔‘‘
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اُن سے دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا :
بخير قد أصابته برکتک.
بخاري، الصحيح، 3 : 1083، کتاب الجهاد والسير، رقم : 2805
مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
ابو عوانه، المسند، 3 : 249، رقم : 4843
’’بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی برکت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘

دستِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتیں

  دستِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتیں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی حالت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر وبرکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کر دیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :
ہاتھ جس سمت اُٹھایا غنی کر دیا
اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست بے نوا گدا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے، اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں :

(1) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ دوسروں کو فیض یاب کرتے رہے

حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :
فقال : ادن يا غلام، فدنا منه فوضع يده علي رأسه، وقال : بارک اﷲ فيک!
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر رکھا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔‘‘
حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فرأيتُ حنظلة يؤتي بالرجل الوارم وجهه وبالشاة الوارم ضرعها فيتفل في کفه، ثم يضعها علي صُلعته، ثم يقول : بسم اﷲ علي أثر يد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، ثم يمسح الورم فيذهب.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 72
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 191، رقم : 2896
هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 211
بخاري التاريخ الکبير، 3 : 37، رقم : 152
ابن حجر، الاصابه، 2 : 133
ميں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے بسم اﷲ علی اثرید رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اُتر جاتا۔‘‘

(2) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے بال عمر بھر سیاہ رہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس آپ بیتی کے وہ خود راوی ہیں :
قال لی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : ادن منی، قال : فمسح بيده علي رأسه ولحيته، قال، ثم قال : اللهم جمله و ادم جماله، قال : فلقد بلغ بضعا ومائة سنة، وما في رأسه ولحيته بياض الانبذ يسير، ولقد کان منبسط الوجه ولم ينقبض وجهه حتي مات.
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 77
عسقلاني، الاصابه، 4 : 599، رقم : 5763
مزي، تهذيب الکمال، 21 : 542، رقم : 4326
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمر پائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادم آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘

(3) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے خشک تھنوں میں دودھ اُتر آیا۔

سفرِ ہجرت کے دوران جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں پہنچے اور اُن سے کھانے کے لئے گوشت یا کچھ کھجوریں خریدنا چاہیں تو ان کے پاس یہ دونوں چیزیں نہ تھیں۔ حضور ں کی نگاہ اُن کے خیمے میں کھڑی ایک کمزور دُبلی سوکھی ہوئی بکری پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟ حضرت اُمِ معبدنے جواب دیا : لاغر اور کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اجازت ہو تو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا : دودھ تو یہ دیتی نہیں، اگر آپ دوہ سکتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوھا، آگے روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
فدعا بها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فمسح بيده ضرعها و سمي اﷲ تعالٰي ودعا لها في شاتها، فتفاجت عليه ودرّت فاجتبرت، فدعا بإناءِ يربض الرهط فحلب فيه ثجاً حتي علاه البهاء، ثم سقاها حتيّٰ رويت وسقٰي أصحابه حتي رووا و شرب آخرهم حتي أراضوا ثم حلب فيه الثانية علي هدة حتیّٰ ملأ الإناء، ثم غادره عندها ثم بايعها و ارتحلوا عنها.
حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 56
شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 252، رقم : 3485
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
هبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 778
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
عسقلاني، الاصابه، 8 : 306
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 230
ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 60
طبري، الرياض النضره، 1 : 471
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے منگوا کر بسم اﷲ کہ کر اُس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور اُم معبد کے لئے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کر دے اور اُس میں دودھ دوہ کر بھر دیا، یہاں تک کہ اُس میں جھاگ آگئی۔ پھر اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کو پلایا، وہ سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر دوسری بار دودھ دوہا۔ یہاں تک کہ وہی برتن پھر بھر دیا اور اُسے بطورِ نشان اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پاس چھوڑا اور اُسے اِسلام میں بیعت کیا، پھر سب وہاں سے چل دیئے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کا خاوند آیا، اُس نے دودھ دیکھا تو حیران ہوکر کہنے لگا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا نے جواباً آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ شریف اور سارا واقعہ بیان کیا، جس کا ذکر ہم متعلقہ مقام پر کر آئے ہیں۔ وہ بولا وہی تو قریش کے سردار ہیں جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ میں نے بھی قصد کرلیا ہے کہ اُن کی صحبت میں رہوں چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔
حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا قسم کھا کر بیان کرتی ہیں کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاتِ مبارکہ کے دس برس گزارے، پھر اڑھائی سالہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور گزرا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا۔ ان کے دورِ خلافت کے اواخر میں شدید قحط پڑا، یہاں تک کہ جانوروں کے لئے گھاس پھوس کا ایک تنکا بھی میسر نہ آتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے میری بکری اُس قحط سالی کے زمانے میں بھی صبح و شام اُسی طرح دودھ دیتی رہی۔

(4) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس سے لکڑی تلوار بن گئی۔

غزوۂ بدر میں جب حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں ایک سوکھی لکڑی عطا کی جو اُن کے ہاتھوں میں آکر شمشیرِ آبدار بن گئی۔
فعاد سيفا في يده طويل القامة، شديد المتن أبيض الحديدة فقاتل به حتي فتح اﷲ تعالٰي علي المسلمين وکان ذلک السيف يُسمّي العون.
ابن هشام، السيرة النبويه، 3 : 185
بيهقي، الاعتقاد، 1 : 295
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 411
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 308
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 1080، رقم : 1837
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 188
نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 310، رقم : 418
’’جب وہ لکڑی اُن کے ہاتھ میں گئی تو وہ نہایت شاندار لمبی، چمکدار مضبوط تلوار بن گئی، تو اُنہوں نے اُسی کے ساتھ جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور وہ تلوار عون (یعنی مددگار) کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘
جنگِ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جحش کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔
فرجع فی يد عبداﷲ سيفاً.
سيوطی، الخصائص الکبریٰ، 1 : 359
أزدی، الجامع، 11 : 279
ابن حجر، الاصابه، 4 : 36، رقم : 4586
’’جب وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں گئی تو وہ (نہایت عمدہ) تلوار بن گئی۔‘‘

5۔ دستِ اقدس کے لمسِ سے کھجور کی شاخ روشن ہو گئی

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ایک اندھیری رات میں طوفانِ باد و باراں کے دوران دیر تک حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی اور فرمایا :
إنطلق به فإنه سيضئ لک مِن بين يديک عشرا، و مِن خلفک عشراً، فإذا دخلت بيتک فستري سواداً فأضربه حتي يخرج، فإنه الشيطان.
قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفیٰ، 1 : 219
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 65، رقم : 11642
ابن خزيمه، صحيح، 3 : 81، رقم : 1660
طبراني، المعجم الکبير، 19 : 13، رقم : 19
هيثمي، مجمع الزوائد، 2 : 167
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 29
مناوي، فيض القدير، 5 : 73
’’اسے لے جاؤ! یہ تمہارے لئے دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہوگے تو تمہیں ایک سیاہ چیز نظر آئے گی پس تم اُسے اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ شاخ ان کے لئے روشن ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوگئے اور اندر جاتے ہی اُنہوں نے اُس سیاہ چیز کو پالیا اور اتنا مارا کہ وہ نکل گئی۔

(6) توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیرہ

بیہقی، ابو نعیم، ابن سعد، ابن عساکر اور زرقانی نے یہ واقعہ ابو منصور سے بطریق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیاہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کل اکیس نکلیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :
أدع عشرة، فدعوت عشرةً فأکلوا حتٰی شبعوا ثم کذالک حتٰی أکل الجيش کله و بقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فادخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها و أکلت منه حياة عمر کلها و أکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان إنتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق.
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة) 6 : 117
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 685، ابواب المناقب، رقم : 3839
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 352
ابن حبان، الصحيح، 14 : 467، رقم : 6532
اسحاق بن راھويه، المسند، 1 : 75، رقم : 3
بيهقي، الخصاص الکبریٰ، 2 : 85
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 631
’’دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے بلایا۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی رضی اللہ عنھم کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ اور جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ کیا تمہیں بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کنتی کھجوریں کھائیں ہوں گی؟ تخمیناً دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔‘‘
یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں مگر پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔

(7) دستِ شفا سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتیک دشمنِرسول ابو رافع یہودی کو جہنم رسید کر کے واپس آرہے تھے کہ اُس کے مکان کے زینے سے گر گئے اور اُن کی پنڈلی ٹوٹ گئی۔ وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی ٹانگ کھولو۔ وہ بیان کرتے ہیں :
فبسطتُ رجلی، فمسحها، فکأنّما لم أشتکها قط.
بخاری، الصحيح 4 : 1483، کتاب المغازي، رقم : 3813
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 80
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 56
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 946
ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 125، رقم : 134
 ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 139
ابن تيميه، الصارم المسلول، 2 : 294
’’میں نے اپنا پاؤں پھیلا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دستِ شفا پھیرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ کرم کے پھیرتے ہی میرے پنڈلی ایسی درست ہوگئی کہ گویا کبھی وہ ٹوٹی ہی نہ تھی۔‘‘

(8) دستِ اقدس کی فیض رسانی

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کا گورنر تعینات کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ مقدمات کے فیصلے میں میری ناتجربہ کاری آڑے آئے گی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سینے پر پھیرا جس کی برکت سے انہیں کبھی کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی فیض رسانی کا حال آپ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں :
فضرب بيده في صدري، و قال : اللهم اهد قلبه و ثبت لسانه. قال فما شککتُ في قضاء بين اثنين.
ابن ماجه، السنن، 2 : 774، کتاب الاحکام، رقم : 2310
عبد بن حميد، المسند، 1 : 61، رقم : 94
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 337
احمد بن ابي بکر، مصباح الزجاجه، 3 : 42، رقم : 818
سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 2 : 122
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ کرم میرے سینے پر مارا اور دعا کی : اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت پر قائم رکھ اور اس کی زبان کو حق پر ثابت رکھ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ (خدا کی قسم) اُس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلے کرنے میں ذرہ بھر غلطی کا شائبہ بھی مجھے نہیں ہوا۔‘‘

(9) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی قوت حافظہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
قلتُ : يا رسول اﷲ، إني أسمع منک حديثاً کثيراً فأنساه؟ قال : أبسط، رداء ک، فبسطتُه، قال : فغرف بيديه فيه، ثم قال : ضمه فضممته، فما نسيتُ شيئاً بعده.
بخاري، الصحيح، 1 : 56، کتاب العلم، رقم : 119
مسلم، الصحيح، 4 : 1940، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2491
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 684، ابواب المناقب، رقم : 3835
ابن حبان، الصحيح، 16 : 105، رقم : 7153
ابو يعلٰی، المسند، 11 : 88، رقم : 6219
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 329
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1771
عسقلاني، الاصابه، 7 : 436
ذهبي، تذکرة الحفاظ، 2 : 496
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 12 : 174
’’میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلا؟ میں نے پھیلا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لپ بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا : اسے سینے سے لگا لے۔ میں نے ایسا ہی کیا، پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘

(10) اہالیان مدینہ روزانہ دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برکت حاصل کرتے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إذا صلي الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتي بإناء إلا غمس يده فيها، فربما جاؤه في الغداة الباردة فيغمس يده فيها.
مسلم، الصحيح، 4 : 1812، کتاب الفضائل، رقم : 2324
عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1274
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
نووي، شرح علي صحيح مسلم، 15 : 82
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 171
مناوي، فيض القدير، 5 : 146
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدّامِ مدینہ پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات سرد موسم کی صبح یہ واقعہ ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ ان میں ڈبو دیتے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی خیر و برکت کی تاثیر کے حوالے سے یہ چند واقعات ہم نے محض بطور نمونہ درج کئے ورنہ دستِ شفا کی معجز طرازیوں سے کتبِ احادیث و سیر بھری پڑی ہیں۔

(11) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دے کر اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے۔

1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکروں میں سے ایک لشکر میں تھے، لوگ کفار کے مقابلے سے بھاگ نکلے اور ان بھاگنے والوں میں، میں بھی شامل تھا پھر جب پشیمان ہوئے تو سب نے واپس مدینہ جانے کا مشورہ کیا اور عزمِ مصمم کرلیا کہ اگلے جہاد میں ضرور شریک ہوں گے۔ وہاں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کی تمنا کی کہ خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کردیں۔ اگر ہماری توبہ قبول ہوگئی تو مدینہ میں ٹھہرجائیں گے ورنہ کہیں اور چلے جائیں گے۔ پھر ہم نے بارگاہِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںآکر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم بھاگنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
لا، بل أنتم العَکَّارون. قال : فدنونا فقبلنا يده، فقال : أنا فِئَة المسلمين.
ابوداؤد، السنن، 3 : 46، کتاب الجهاد، رقم : 2647
ابوداؤد، السنن، 4 : 356، کتاب الأدب، رقم : 5223
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 215، ابواب الجهاد، رقم : 1716
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 70، رقم : 5384
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، رقم : 972
قرطبي، الجامع لإحکام القرآن، 7 : 383
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 295
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 541، رقم : 33686
ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 1 : 213
حسيني، البيان والتعريف، 1 : 295، رقم : 786
مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 7 : 437
شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 80
ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 145
’’نہیں، بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ (یہ سن کر ہم خوش ہوگئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں(یعنی ان کا ملجا و ماویٰ ہوں، وہ میرے سوا اور کہاں جائیں گے)۔‘‘
2۔ امِّ ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع بن عامر جو وفدِ عبدالقیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے، سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا :
لما قَدِمنا المدينة فجعلنا نتبادرُ من رواحلِنا، فَنُقَبِّلُ يدَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و رِجلَه.
ابوداؤد، السنن، 4 : 357، کتاب الأدب، رقم : 5225
بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 447، رقم : 1493
طبراني، المعجم الکبير، 5 : 275، رقم : 5313
بيهقي، السنن الکبری، 7 : 102، رقم : 13365
بيهقي، شعب الايمان، 6 : 477، رقم : 8966
عسقلاني، فتح الباري، 8 : 85
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 57
مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 7 : 437
عسقلاني، تلخيص الحبير، 4 : 93، رقم : 1830
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 133، رقم : 418
مزي، تهذيب الکمال، 9 : 266، رقم : 1946
زيلعي، نصب الراية، 4 : 258
عسقلاني، الدراية في تخريج احاديث الهداية، 2 : 232، رقم : 691
شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 304، رقم : 1684
’’جب ہم مدینہ منورہ گئے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دینے لگے۔‘‘

Saturday, 12 October 2013

موئے مبارک کے کمالات و برکات

موئے مبارک کے کمالات و برکات



  مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اصلاح بنوارہے تھے اور صحابہ ارد گر بیٹھے نوبت بہ نوبت اپنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر موئے مبارک کوحاصل کرتے تھے۔ ’’المواھب اللدنیہ‘‘ میں ’بخاری ‘و ’مسلم‘ سے منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع میں اصلاح بنوالی تو سر مبارک کے بال ایک ایک دو دو لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔ انتہی ملخصا۔
شارح زرقانیؒ نے لکھا ہے کہ ایک ایک دو دو بال تقسیم کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حاضرین کثرت سے تھے اور اس سے غرض یہ تھی کہ ہمیشہ ان کے پاس وہ برکت باقی رہے اور آئندہ کے لئے یاد گار ہو۔ ان احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ موئے مبارک اس غرض سے حاصل کیا کرتے تھے کہ بطور تبرک ان کو اپنے پاس رکھیں اور اپنے احباب میں تقسیم کریں وہ تبرکات کچھ تو اپنے ورثاء میں تقسیم کئے اور کچھ انہوں نے اپنے احباب کو دےدئے ہونگے اور خود صحابہ جب انکی قدر کرتے تھے تو وہ جن کے پاس گئے وہاں بھی بطور تبرکات رکھے جاتے تھے جیسا کہ اب تک باوجود تیرہ سو سال منقضی ہونے کے تبرکات ہی کی حیثیت سے رکھے جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس موقع میں جہاں اس تعظیم وتوقیر کا منشاء قائم ہورہا تھا حضرتﷺ کا سکوت فرمانا اسی غرض سے تھا کہ اہل اسلام دل کھول کر ان تبرکات سے برکت حاصل کیا کریں، اور بڑی غرض اس سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو عشاق نبیﷺ دیدار جہاں آرا سے محروم ہیں وہ اس متبرک جز کو سر اور آنکھوں پر رکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں اور سر فراز ہوں۔ اب رہی یہ بات کہ بعض جعل سازوں نے بھی بغرض دنیوی کار سازیاں کی ہوں گی جس سے ہر ایک میں اشتباہ واقع ہو گیا تو وہ اصل مقصود کے منافی نہیں اس لئے کہ تعظیم کرنے والا اس کو موئے مبارک سمجھتا ہے اس کے اعتقاد کے مطابق خدائے تعالی اس کو برکت عطا فرمائیگا۔ جیسا کہ اس حدیث شریف سے بھی واضح ہوسکتا ہے۔(انما الاعمال بالنیات)۔

حسبِ عقیدت عطائے برکت


کنزالعمال کی ’’کتاب المواعظ والحکم‘‘ میں یہ حدیث شریف ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ خدائے تعالی کی طرف سے کسی کو فضیلت کی کوئی بات پہنچے اور اس کو ایمان کی راہ سے قبول کر لیا اور اس میں ثواب کی امید رکھی تو حق تعالی اس کووہی ثواب عطا فرمائیگا جو اس کو معلوم ہوا ہے۔ اگرچیکہ وہ خلاف واقع ہو۔ انتھی ملخصا۔
مقصود یہ کہ کسی روایت سے یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں کام میں فضیلت ہے گو اس کا ثبوت باضابطہ نہوا ہو مگر عمل کرنے والا اعتقاد سے اس پر عمل کرلے تو وہی ثواب پائیگا جو اس میں مذکور ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی بزرگ کے پاس موئے مبارک کی زیارت ہوتی ہو اور انہوں نے کہہ دیا کہ یہ موئے مبارک آنحضرتﷺ کا ہے تو اگر فی الواقع وہ حضرت ﷺ کا موئے مبارک نہ بھی ہو تو جو برکت اصلی موئے مبارک کی زیارت میں حاصل ہونے والی ہو وہی برکت اس موئے مبارک کی زیارت میں بھی حاصل ہوگی۔ یہ خدائے تعالی کا ایک فضل ہے جو بطفیل حبیب کریمﷺ آپ کی امت پر ہے واہی تباہی شبہات کی وجہ سے ایسی فضیلت سے محروم رہنا مقتضائے عقل نہیں۔ شیطان آدمی کا دشمن ہے ،وہ ہر گز نہیں چاہتا کہ کوئی فضیلت اور برکت کسی کو حاصل ہو۔ اس وجہ سے وہ ایسے شبہات پیش کرتا ہے جس کو عقل بھی مان لیتی ہے مگر ایمان آدمی کا مستحکم ہو تو دونوں کو جواب دیکر آدمی سعادت دارین حاصل کر سکتا ہے۔ جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ دنیا میں آنحضرتﷺ کے ہزارہا بلکہ لاکھوں لاکھ موئے مبارک موجود ہیں تو اب یہ خیال کرنے کی ضرورت ہی کیا کہ وہ کسی اور کا بال ہے۔ اگر صرف سو پچاس بال کا وجود احادیث سے ثابت ہو تا تو یہ کہنے کی گنجائش ہوتی کہ ہزار ہا موئے مبارک کہاں سے آگئے۔ جس کی زیارتیں ہورہی ہیں۔ میری دانست میں اس وقت موئے مبارک کی اس قدر کثرت نہیں جس قدر صحابہ کے زمانہ میں احادیث سے معلوم ہوتی ہے۔


پرستش قرار دے کر لوگوں کو زیارت سے روکنا


بہر حال موئے مبارک کی زیارت نہ کر کے اس برکت سے محروم رہنا جو صحابہ کے مد نظر تھی قرین مصلحت نہیں۔ بعض حضرات اس کو پرستش قرار دیکر لوگوں کو زیارت سے روکتے ہیں اگر ایسے امور پرستش قرار دئے جائیں تو ہندوؤں کا قول صادق آجائیگا کہ مسلمان بھی مثل دیول کے کعبے کے اطراف پھرتے ہیں اور اس کی پرستش کیا کرتے ہیں مگر ہندوؤں کے قول سے ہم ان امور کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتے جو بہ تعلیم آنحضرتﷺ ثابت ہوئے اور صحابہ ان پر عامل رہے ہیں۔


موئے مبارک کی برکت سے فتح ونصرت


’’تاریخ واقدی‘‘ وغیرہ میں مروی ہے کہ جب شام میں خالد بن الولید رضی اللہ عنہ جبلہ بن ایہم کی قوم کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے ایک روز تھوڑی فوج کے ساتھ مقابل ہوئے اور رومیوں کے بڑے افسر کو مارلیا اس وقت جبلہ نے تمام رومی اور عرب مستنصرہ کو یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا صحابہ کی حالت نہایت نازک ہوگئی رافع ابن عمر طائی نے حضرت خالدؓ سے کہا: آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: سچ کہتے ہو اسکی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی ٹوپی بھول آیا جس میں آنحضرتﷺ کے موئے مبارک ہیں۔ ادھر یہ حالت تھی اور ادھر رات ہی کو آنحضرتﷺ نے ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کو جو افسر فوج تھے خواب میں زجر فرمایا کہ تم اس وقت سوتے پڑے ہو اٹھو اور فواراً خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی مدد کو پہنچو کفار نے ان کو گھیر لیا ہے۔ اگر تم اس وقت جاؤ گے تو وقت پر پہنچ جاؤگے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اسی وقت لشکر میں پکاردئے کہ جلد تیار ہو جاؤ چنانچہ وہاں سے وہ مع فوج یلغار روانہ ہوئے۔ راستے میں دیکھاکہ فوج کے آگے آگے نہایت سرعت سے ایک سوار گھوڑا دوڑائے ہوئے چلاجارہا ہے اسطرح کہ کوئی اس کو پہنچ نہیں سکتا۔ انہوں نے خیال کیا کہ شاید کوئی فرشتہ ہے جو مدد کے لئے جارہا ہے مگر احتیاطاً چند تیز رفتار سواروں کو حکم کیا کہ اس سوار کا حال دریافت کریں۔ جب قریب پہنچے تو پکار کر کہا کہ اے جواں مرد سوار ذرا توقف کر۔ یہ سنتے ہی وہ ٹہر گیا دیکھا تو خالد بن ولید کی بی بی تھیں۔ ان سے حال دریافت کیا کہا کہ اے امیر جب رات میں میں نے سنا کہ آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں سے فرمایا کہ خالد بن الولیدؓ کو دشمن نے گھیر لیاتو میں نے خیال کیا کہ وہ ناکام کبھی نہ ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ آنحضرتﷺ کے موئے مبارک ہیں مگر جب ادھر ادھر دیکھا تو ان کی ٹوپی پر نظر پڑی جس میں موئے مبارک تھے۔ نہایت افسوس سے میں نے ٹوپی لی اور اب چاہتی ہوں کہ کسی طرح اس کو ان تک پہنچادوں۔ ابوعبیدہ نے فرمایا: جلدی سے جاؤ خدا تمہیں برکت دے۔ چنانچہ انہوں نے گھوڑے کو ایڑ کیا اور آگے بڑھ گئیں۔ رافع بن عمر جو خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے وہ کہتے ہیں کہ ہماری جب یہ حالت ہوئی کہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے یکبار گی، تہلیل وتکبیر کی آواز آئی خالد رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کہ یکبارگی روم کے سواروں پر نظر پڑی کہ بدحواس بھاگے چلے آرہے ہیں اور ایک سوار ان کا پیچھا کئے ہوئے ہے خالد رضی اللہ عنہ گھوڑا دوڑ ا کر اس سوار کے قریب پہنچے او رپوچھا کہ اے جواں مرد سوار تو کون ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں تمہاری بی بی ام تمیم ہوں ۔تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں ،جس سےآپ دشمن پر فتح پا یا کرتے ہو تم نے اس کو اسی وجہ سے بھولا تھا کہ یہ مصیبت تم پر آنے والی تھی۔ الغرض وہ ٹوپی انہوں نے ان کو دی اس سے برق خاطف کی طرح نور نمایاں ہوا۔ راوی حدیث قسم کھا کر کہتے ہیں کہ خالدؓنے جب ٹوپی پہن کر کفار پر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پیر اکھڑ گئے اور لشکر اسلام کی فتح ہوگئی۔ انتہی ملخصا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم موئے مبارک میں جو برکت سمجھتے تھے سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا چیز ہے حسی ہے یا معنوی اور بالوں کے اندر رہتی ہے یا سطح بالائی پر کتنی ہی موشگافیاں کیا کیجئے اس کا سمجھنا مشکل تھا۔ اس روایت سے سب مشکلات حل ہوگئیں۔ اور معلوم ہوگیا کہ مشکل سے مشکل کاموں میں آسانی اور جاں گداز واقعات میں امداد غیبی اس برکت کا ایک ادنی کرشمہ ہے۔ ’’شمس التواریخ‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرے سارے فتوحات کے باعث یہی موئے مبارک ہوتے تھے۔ صاحب ’’الاصابۃ فی احوال الصحابہ‘‘ تحریر فرماتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں یہ ٹوپی سر پر نہ تھی جب تک نہیں ملی حضرت خالد رضی اللہ عنہ نہایت الجھن میں رہے ملنے کے بعد اطمینان ہوا۔ اس وقت آپ نے یہ ماجرا بیان فرمایاکہ کل فتوحات کا مدار ان موئے مبارک پر تھا۔ انتہی۔
غرض کہ یہ تبرکات وہ ہیں جو بڑی جاں فشانیوں سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے حاصل کئے اور اس کی حفاظت کی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے لوگ نہ تھے کہ فضول کام میں وہ اہتمام کرتے کہ دینی ضروریات سے بھی زیادہ ہو کیونکہ اس کے حاصل کرنے میں نوبت بہ جدال وقتال پہونچنے کو ہوتی۔ جیسا کہ لفظ حدیث کا دوا یقتلون سے ظاہر ہے بہ خلاف اس کے اور کسی دوسرے کام میں یہاں تک نوبت نہیں پہنچتی تھی۔ دیکھئے صف اول کی فضیلت ثابت ہے مگر جب یہاں تک نوبت پہنچی تو صاف ارشاد ہوگیا کہ صف ثانی میں بھی وہی فضیلت ہے اور اس جھگڑے کو یوں طے فرمادیا۔ بخلاف اس کے یہ حالت روزانہ ملاحظہ فرماتے اور خاموش رہ جاتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ بھی اس اہتمام کو برانہیں سمجھتے تھے کیونکہ حضرت جانتے تھے کہ وہ برکات انکے دارین کی صلاح وفلاح کے باعث ہیں ایسی چیز سے انکو روکنا گویا ان کو سخت ضرر پہنچاناہے اور مقتضائے رحمت نبویﷺ یہ نہ تھا کہ اپنے جاں نثاروں کو کسی قسم کا ضرر پہنچائیں۔ اہل انصاف غور فرماسکتے ہیں کہ صحابہ کا ہم پر کیسا احسان ہے کہ کیسی مصیبت سے انہوں نے وہ تبرکات حاصل کئے اور ان کی حفاظت نسلا بعد نسل کر کے ہم تک پہنچایا مگر افسوس ہے کہ ہمارے زمانے میں ان کی کچھ قدر نہ ہوئی کیونکہ باپ دادا کی کمائی کی آدمی کو وہ قدر نہیں ہوتی جو اپنی کمائی کی ہوتی ہے۔ ’’تاریخ واقدی‘‘ میں لکھا ہے کہ
جنگ یرموک میں ایک روز خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ اپنی شجاعت بیان کرتے ہوئے لشکر کفار کی طرف بڑھے ادھر سے ایک پہلوان نکلا جس کا نام نسطور تھا اور دونوں کا دیر تک سخت مقابلہ ہورہا تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ کا گھوڑا ٹھو کر کھا کر گرا اور خالد رضی اللہ عنہ اس کے سر پر آگئے اور ٹوپی زمین پر گر گئی نسطور موقع پاکر آپ کی پیٹھ پر آگیا اس حالت میں خالد رضی اللہ عنہ نے پکار کر اپنے رفقاء سے کہا کہ میری ٹوپی مجھے دوخدا تم پر رحم کرے ایک شخص آپ کی قوم بنی مخزوم سے تھا دوڑ کر ٹوپی دیدیا آپ نے اسکو پہن کر باندھ لیا اور نسطور پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کردیا۔ لوگوں نے اس واقعے کے بعد پوچھا کہ یہ آپ نے کیسی حرکت کی کہ دشمن قوی پیٹھ پر آپہنچا اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی اس وقت آپ اپنی ٹوپی کی فکر میں تھے جو شاید دو چار آنے کی ہوگی آپ نے کہا وہ معمولی ٹوپی نہیں تھی اس میں سرور کائناتﷺ کے موئے مبارک تھے۔

 


موئے مبارک کی وجہ سے ادنیٰ شیٔ کی غیر معمولی قدر


اب غور کیجئے کہ اس ٹوپی کا خیال اس وقت کہ دشمن کے پورے قابو میں ہیں کس غرض سے ہوگا۔ لوگوں کو جو تعجب تھا کہ ایسی کیا قیمت اس کی ہوگی جو ایسی حالت میں اس کا خیال آیا وہ پہلے ہی آپ نے دفع فرمادیا کہ کوئی قیمتی چیز نہ تھی لیکن اس میں موئے مبارک تھے۔ غرض کہ اس وقت توجہ موئے مبارک کی طرف تھی اور اس کی طرف توجہ کرنے کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس ٹوپی سے صرف استعانت مقصود تھی کہ دشمن پر مدد حاصل ہو۔ اب غور کیجئے کہ ایسے جلیل القدر صحابی جن کی تعریف خود آنحضرت ﷺ نے کی اور سیف من سیوف اللہ فرمایا ان کی یہ حالت ہے کہ ایسے وقت میں کہ دشمن پورا قابو پاچکا ہے اور جانبری کی کچھ توقع نہیں اور دشمن خنجر بکف ہے موئے مبارک سے استمداد کر رہے ہیں اور یہ استمداد زبانی نہ تھی جیسا کہ اکثر شاعری میں استمدادی الفاظ کہدئے جاتے ہیں جن میں بندش مضمون زیادہ مقصود ہوتی ہے۔ بلکہ یہ مدد طلب کرنا عملی طور پر تھا اور زبان حال پکار پکار کرکہتی تھی اے حبیب خداﷺ کے پیارے موئے مبارک یہی وقت مدد ہے دشمن قوی سے بچالیجئے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بفضلہ تعالی اس نازک حالت میں آپ ہی کو غلبہ ہوا ،اس میں شک نہیں کہ وہ خدا سے ضرور مدد مانگ رہے ہوں گے مگر ظاہرانہ انہوں نے کوئی دعا کی نہ ایسے الفاظ کہے جس سے معلوم ہو کہ وہ بال کوئی قابل توجہ نہیں بلکہ برخلاف اسکے صاف کہدیا کہ میرے سارے فتوحات کے باعث یہی موئے مبارک ہیں اہل انصاف اگر ادنی توجہ فرمائیں تو مسئلہ استعانت بالغیر جو آج کل معرکۃ الآراء بناہوا ہے اسی ایک واقعہ سے حل ہوسکتا ہے۔


موئے مبارک کی توہین خسارئہ دنیا و عقبیٰ


جلیل القدر صحابہ کے عمل سے جب یہ ثابت ہوگیا کہ موئے مبارک نہایت واجب التعظیم ہیں تو اس کے مقابلے میں آخری زمانے کے مسلمانوں کا یہ کہناکہ انکی تعظیم بدعت اور بت پرستی ہے، ہر گز قابل اعتبار نہیں ہوسکتا۔ بڑی خرابی اس میں یہ ہے کہ موئے مبارک کی اس میں سخت توہین ہے کیونکہ اسے بت کے ساتھ تشبیہ دی جارہی ہے اور آنحضرت ﷺ کی ادنی چیز کی توہین بھی باعث عذاب ولعنت ہے کیونکہ اس سے آنحضرتﷺ کی اذیت متصور ہے جو باعث لعنت وشقاوت: ابدی ہے۔
حق تعالی فرماتا ہے ﴿انّ الذین یؤذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ ولھم عذاب عظیم﴾(۱)۔ یعنی جو لوگ اللہ اور رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا وآخرت میں خداکی لعنت ہے اور ان پر بڑا عذاب ہوگا۔ اور ’’کنزالعمال ‘‘ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: جس نے میرے ایک بال کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی او ر جس نے مجھے ایذا دی اس نے خدا کو ایذا دی اور اس میں یہ روایت بھی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں آنحضرتﷺ نے اپناایک بال ہاتھ میں لیکر فرمایا کہ جس نے میرے بال کو ایذا دی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے خدا کو ایذا دی اور جس نے خدا کو ایذا دی اس پر تمام آسمان اور زمین کے فرشتوں کی لعنت ہے۔ اور نہ اس کے نوافل قبول ہوں گے اور نہ فرائض۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس پر جنت حرام ہے۔ ظاہراً بال ایک ایسی چیز ہے کہ اس کو کاٹتے ہیں کترتے ہیں مگر اس کو ایذا نہیں ہوتی پھر کیا وجہ ہوگی کہ آنحضرتﷺ نے موئے مبارک کو ہاتھ میں لیکر اس کی ایذا کی تصریح فرمائی یوں تو آسان ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجازیا مبالغہ ہے۔ مگر نکتہ رس طبائع کا خلجان ایسی توجیہات سے 

 دفع نہیں ہوسکتا۔

موئے مبارک سے صرف عقیدت مند ہی مستفید ہوتے ہیں:



موئے مبارک کی زیارت سے ہر کس وناکس مستفید نہیں ہوسکتا اس کے اہل وہ لوگ ہیں جن کو آنحضرتﷺ سے پوری عقیدت اور محبت ہو پھر جس قدر عقیدت ہوگی اسی قدر فوائد ہوں گے۔ مولانا شاہ سید محمد عمر صاحب نے رسالہ’’ استشفاء والتوسل‘‘ میں کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ مولفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ کی عبارت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’میرے والد یعنی شاہ عبدالرحیم صاحبؒ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک بار ایسا سخت بیمار ہوا کہ زندگی کی امید نہ تھی شیخ عبدالعزیز میرے خواب میں آئے اور کہا کہ آنحضرت ﷺ تمہاری عیادت کیلئے تشریف لاتے ہیں شاید اس دروازہ سے تشریف لائیں جدھر تمہارے پاؤں ہیں۔ میں اشارہ کر کے لوگوں سے کہا کہ پلنگ کا رخ پھیردیں چنانچہ پھیردیا گیا ۔ آنحضرت ﷺ تشریف فرماہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اے لڑکے تمہارا کیا حال ہے اس کلام جاں فزا کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ وجد کی سی حالت طاری ہوئی اور اتنا رویا کہ قمیص مبارک حضرتﷺ کا میرے اشکوں سے تر ہوگیا کیونکہ حضرتﷺ مجھے اپنے گود میں لئے ہوئے تشریف رکھتے تھے اس طرح پر کہ ریش مبارک میرے سر پر تھی جب وہ حالت فرو ہوئی تو میرے خیال میں آیا کہ ایک مدت سے مجھے موئے مبارک کی آرزو ہے اگر اس وقت عطا ہوجائے تو کیا اچھا ہوگا اس خیال کے ساتھ ہی ریش مبارک کے دو بال مجھے عطا فرمائے۔ مجھے اس وقت یہ فکر ہوئی کہ یہ موئے مبارک عالم شہادت میں بھی میرے پاس رہیں گے یا نہیں؟ اس خیال کے ساتھ ہی ارشاد ہوا اس عالم میں بھی رہیں گے چنانچہ میں جب بیدار ہوا وہ دونوں موئے مبارک موجود تھے میں نے ان کو محفوظ رکھا اور اسی روز مجھے صحت ہوگئی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ والد نے آخر عمر میں جب تبرکات تقسیم فرمائے مجھے بھی اس میں سے ایک موئے مبارک عطا فرمایا۔ انتہی۔
شاہ صاحب کے والد بزرگوار کس پایہ کے بزرگ ہونگے اور کس درجے کا ان کو عشق موئے مبارک سے ہوگا کہ اس حالت میں بھی ان کو موئے مبارک کا خیال لگا ہواتھا جس کے طفیل میں اس دولت عظمی سے مشرف ہوئے۔ یہاں ایک بہت بڑا معرکۃ الآرا مسئلہ بھی حل ہوگیا وہ یہ کہ خواب میں فقط خیالی صورتیں نظر آتی ہیں جو جسم نہیں ہوسکتیں کیونکہ خیال کا خزانہ دماغ کا ایک حصہ ہے اس میں اجسام کو کہاں گنجائش مگر موئے مبارک جو عطا ہوئے وہ جسم تھے۔ اور شاہ عبدالرحیم صاحب نے بچشم خود دیکھا کہ ریش مبارک سے علحدہ کر کے وہ دئے گئے جس سے ثابت ہے کہ ریش مبارک بھی خیالی نہ تھی بلکہ مجسم تھی پھر ریش مبارک کا حسی تعلق حضرت ﷺ کے جسم اطہر سے تھا جس سے ظاہر ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کی صورت خیالی محسوس نہیں ہوئی بلک جسم مقدس کے ساتھ وہاں تشریف فرما ہوئے تھے گو دوسروں نے نہیں دیکھا جس طرح جبرئیل علیہ السلام مجلس اقدس میں بذات خود آتے تھے اور سوائے حضرتﷺ کے ان کو کوئی نہیں دیکھتا تھا۔ اب اگر آنحضرتﷺ کا بنفس نفیس وہاں تشریف فرما ہونا تسلیم نہ کیا جائے تو شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے والد بزرگوار کی تکذیب ہوئی جاتی ہے ہمارا دل تو اس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی تکذیب کیجائے کیونکہ ایک عالَم نے ان کے علم وفضل اور تقدس کو مان لیا ہے اور ان کو جھوٹ کہنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ اس واقعے سے کوئی ان کا فائدہ متصور نہیں۔اب ان قرآئن اور اسباب سے اگر آنحضرتﷺ کا بہ نفس نفیس مع جسم تشریف لانا ثابت کیا جائے تو معمولی عقلیں گو اس کو نہیں مان سکتیں مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی عقلیں اکثر غلطی کرتی ہیں جیسا کہ ہم نے کتاب العقل میں ثابت کردیا ہے تواب ہمارا فرض ہے کہ ایمانی راہ سے اپنی عقلوں کو مجبور کریں جس سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ حدیث شریف میں جو وارد ہے
﴿من رأنی فی المنام فقد رأنی فان الشیطان لا یتمثل بی﴾
یعنی جس نے خواب میں مجھے دیکھا ،وہ مجھ ہی کو دیکھاکیونکہ شیطان میری صورت میں متمثل نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث پر پورا ایمان آجائیگا اور کوئی خلجان باقی نہ رہیگا۔