Sunday 22 July 2012

حدیث قدسی کسے کہتے ہیں..؟

حدیث قدسی وہ حدیث ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس کی نسبت  اللہ عز و جل کی طرف کریں یعنی نبی ﷺ بیان کریں کہ اللہ تعالی نے یوں فرمایا ہے یا اللہ تعالی ایسے فرماتا ہے۔چنانچہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کے کلام کو جو قرآن کے علاوہ ہوتا ہے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات کچھ چیزیں اللہ کی طرف منسوب کر کے فرمایا کرتے تھے مگر قرآن میں وہ موجود نہیں، ایسی احادیث کے صرف معانی اللہ کی طرف سے القاء ہوئے، الفاظ اور اسلوب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے تھی اس طرح کی احادیث کو ’’حدیثِ قدسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ (مباحث فی علوم القرآن ص:25)
                                                                        حدیث نبوی ﷺمیں الفاظ و معانی رسول اللہﷺ کے اپنے ہوتے ہیں،البتہ حدیث نبوی بھی وحی الٰہی کے تابع ہوتی ہےاورحدیث قدسی کو قدسی اس کی عظمت ورفعت کی وجہ سے کہا جاتا ہےیعنی قدسی کی نسبت قدس کی طرف ہے،جو اس حدیث کے عظیم ہونے کی دلیل ہے۔



بیت الخلاء بیماریوں کی آماجگاہ



  بسم الله الرحمن الرحیم
آج کی دنیا میں جس کو دیکھو مسائل کا شکار ہے جانی،سماجی یا معاشی پریشانی کا شکارہے
سکون نام کی چیز ہماری ذندگی سے نجانے کہاں گئی۔وجہ کیا ہے آخر کہ ہم جو نبی کریم ﷺ کی امتی ہیں اتنے مصایب میں گھرے ہوئے ہیں ۔ذرا سا غور کریں تو وجہ تو با لکل سامنے ہی ہے۔  ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں ذندگی گزارنے کا ایک ڈھنگ دیا ہےایک طریقہ دیا ہےہم اگر ذندگی کے ہر قدم پر نبی کریم ﷺ کی سنتوں کا اہتمام کریں تو بڑی بڑی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں میرے خیال میں تو ایک مومن کی پوری ذندگی ہی دعا ہے۔اللہ تعالی  کو کہ ستر ماؤں سے ذیادہ پیار کرنے والا ہے وہ تو بہانے ڈھونڈتا ہے طریقے ڈھونڈتا ہے کہ ہمیں اپنے سے قریب کرے اس کے لئے اس نے ہمیں آسانیاں ہی آسانیاں دی ہیں وہ تو ہماری دنیا میں بھی آسانی چاہتا ہے آخرت میں بھی،یہ ہم ہی ہیں کہ دامن بچا کر بھاگ رہے ہیں اس لئے مسلسل بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
۔ا نسان کی 90 فیصد روحانی اور 50 فیصد جسمانی بیماریوں کا تعلق صرف بیت الخلاء یعنی واش روم سے ہے۔ایک چھوٹی سی دعا کو چھوڑا اور کتنی بیماریوں نے ہمارا گھر دیکھ لیا۔جراثیم ،جرم تھیوری وغیرہ یہ سب شیطان کے ہی نظام ہیں ہر گندی جگہ ذیادہ جراثیم ہوتے ہیں جنات اور شیاطین وہاں رہتے ہیں۔اب چاہے اس بیت الخلاء کو آپ جتنا سجا لو یہ ظاہری نظام ہی ہے اس کے  لئے نبی کریم ﷺ کی دی ہوئی دعا کو پڑھ کر جانے میں ہی عافیت ہےبیت الخلاء جانا ہماری مجبوری ہے مگر اللہ جل شانہ اس موقع پر بھی ہماری ذمہ داری لیتے ہیں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو کہتے :
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ.
بخاری، الصحيح، کتاب الوضو، باب ما يقول عند الخلاء، 1 : 66، 142
اے اللہ بے شک میں خبیث جنّوں اور خبیث جنّنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
اعوذبک کا مطلب ہے پناہ میں آتا ہوں۔یعنی اللہ کے سپرد اپنے آپ کو کرتا ہوں اللہ   پناہ میں آتا ہوں، بندہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ میں اپنے آپ کو سپرد کرتا ہوں اب جب بندہ اللہ پاک کے سپرد اپنے آپ کو کر دے تو اللہ پاک سے بڑا محافظ بھلا کون ہے؟
بیت الخلاء سے باہر آتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے :
اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِی أَذْهَبَ عَنِّی الْأَذَی وَعَافَانِیْ.       
ابن ماجه، السنن، کتاب الطهارة وسنتها، باب ما يقول اذا خرج من الخلا، 1 : 177،
 
اب یہ بھی استغفار ہے غفرانک یعنی اے اللہ میری بخشش کر دے۔ اے اللہ تو نے نجاست والی چیز کو نکال کر مجھے عافیت دی مجھ  پر کرم کیا مجھ پر فضل کیا۔

  حدیث کا مفہوم ہے کہ انسان کی ہر وقت بیس فرشتے حفاظت کرتے رہتے ہیں اگر یہ حفاظت وہ فرشتے چھوڑ دیں تو ایسی مخلوق رہتی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی آدمی کی بوٹیاں کر دیں۔
 
ہم نے بیت الخلاء کے ٹائلوں سے مذین کر لیا  اور پہلو میں سجا لیااور بے فکر ہو گئے یہاں کچھ لوگوں نے تو مغرب کی اندھی تقلید میں بیت الخلاء کو آرام گاہ بنا ڈالا








 حالانکہ جتنے نفسیاتی امراض کے مریض مغربی ممالک میں ہیں اور کہیں نہیں ہیں۔
اسی طرح بیت الخلاء میں با قاعدہ بک شیلف لگا کر کتابیں سجائی جاتی ہیں کمپیوٹر رکھے جاتے ہیں







ظاہر ہے جو وقت اللہ کو نہیں دیں گے وہ وقت اللہ لگوائیں گے بھر ایسی جگہ مال لگوائیں گے جہاں دل نہیں چاہے گا۔




 
اس تحریر کی تیاری میں جناب حکیم محمد طارق محمود صاحب  کی کتاب خطبات عبقری سے مدد لی گئی ہے۔





Saturday 14 July 2012

ایک دعا


                                                                          ایک دعا
یا اللہ ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی کر ،اے رب کریم  الفت و محبت والی ذندگی عطا فرما ہمارے گھروں سے لڑائی جھگڑے دور فرما  ہمارے گھروں کے ماحول کو جنت کا نمونہ بنا  نفرتوں سے محفوظ فرما۔ دنیا و آخرت کی پریشانیوں سے محفوظ فرما۔اے اللہ ہمارے پیارے پاکستان کی حفاظت فرما۔آمین

بد گمانیاں


بد گمانیاں

 کچھ لوگ دوسروں کے لئے دل میں کافی بدگمانی رکھتے ہیں اور پھر یہی بدگمانی گمان کو حقیقت میں تبدیل کر دیتی ہے۔خاص طور پر بیویاں کافی بد گمان ہوتی ہیں کبھی خاوند دیر سے گھر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ خاوند کام کی وجہ سے یا دفتر کی وجہ سے دین کے کام کی وجہ سے یا دوستوں کی وجہ دیر سے آیا ہو کیونکہ دیر سے آنے کی توسو وجوہات ہوتی ہیں اس سلسلے میں
خاوند کے گھر دیر سےآنےپر  صرف یہ شک دل میں رکھ لیتی ہیں کہ اس کے باہر کسی کے ساتھ تعلقات ہیں یہ انتہائی غیر مناسب اور نقصان دہ ہے۔جب بیوی شوہر کو کسی ایسے گناہ کا طعنہ دیتی ہے جو اس نے نہیں کیا تو اس پر مرد کا  رد عمل  ایک مرد ہونے کے ناطے بہت ذیادہ ہوتا ہے کیا بیوی ایسا طعنہ برداشت کر سکتی ہے؟ ایسے میں خاوند جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو ہو سکتا ہے اس کے آفس میں کام کرنے والی کوئی لڑکی اس سےپوچھے کہ کیا بات ہے سر آج آپ بہت ٹینس نظر آرہے ہیں بس یہ جملہ  خاوند کے دل کو اس کی طرف متوجہ کر کے رکھ دے گا، اور آپ کی بدترین خدشے سچ ہو جائیں گے ۔اور اگر  بلفرض اس کے  پہلے سے ہی تعلقات ہوئے تو  خاوند کا حیا اٹھ جائے گا اور وہ پہلے جو کام  چھپ کر کرتا تھا کھلم کھلا کرے گا۔ایسے میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ایسے میں لڑائی جھگڑے کا  انجام  طلاق کی نوبت  آ جانا ہے اور شیطان تو چاہتا ہی یہی ہے۔قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا  اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس مت کیا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کی غیبت کرو۔ 

گرم چولہا گرم دل


گرم چولہا گرم دل
کہتے ہیں کہ اگرشوہر کو گھر میں گرم چولہا مل جائے اور گرم دل مل جائے تو اس کے علاوہ شوہر کو تیسری چیز کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے بیویوں کو چاہیئے کہ   شوہر کے اچھے اچھے کھانے بنا کر کھلائے جائیں  کچھ شوہر باہر دوستوں کے ساتھ کھانے پینے کے بہت شوقین ہوتے ہیں   اور بیویاں ان کی اس عادت سے چڑتی ہیں  اگر گھر میں اس کو مزے مزے کے کھانے ملیں گے تو آہستہ آہستہ اس کی یہ عادت بھی چھوٹ جائے گی۔

پرکشش لباس


پرکشش لباس
دیکھا گیا ہے  کہ بعض عورتیں یا تو سادگی کے نام پر اپنے کپڑوں سے بہت بے دھیان بن جاتی ہیں۔ایسا لباس پہنتی ہیں  کو بے ڈھنگا ہوتا ہے یا پر کشش نہیں ہوتا یا  پھر اپنے آپ کو اتنا میلا کچیلا ر کھتی ہیں کہ شوہر کا ان کی طرف دیکھنے کو ہی دل نہیں چاہتا  کہتے ہیں جو عورت نظروں میں نہ اترے گی وہ دل میں کیا اترے گی  شریعت میں بھی عورت کو شوہر کے لئے بناؤ سنگھار کا حکم دیا گیا ہے۔لباس چاہے سادہ بھی ہو لیکن صاف ستھرا ہونا چاہیئے۔ بیوی کو چاہیئے کہ پرکشش لباس پہنے ،اب پر کشش کا یہ مطلب نہیں کہ آدھا جسم ڈھکا ہوا ہو۔ جب عورت اپنے آپ کو بنا سنوار کر نہیں رکھے گی تو  شوہر کا دل لازمی باہر کی گندگی میں لگے گا  تو جو چیز شوہر کو باہر متوجہ کر سکتی ہے کیا وہی چیز اس کو گھر میں  اچھائی بن کر متوجہ  نہیں کر سکتی کیا ؟؟؟لباس ہمیشہ پرکشش بنانا چاہئیے رسم رواج کو سامنے مت رکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ یہ مجھ پر کیسا لگے گا میں یہ پہن کر کیسی لگوں گی۔ 

دل کو دل سے راہ ہوتی ہے


دل کو دل سے راہ ہوتی ہے
وہ عورتیں جو خاوند کی مرضی کو پورا کرنے میں لگی رہتی ہیں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ  خاوند  کے دل میں وہ اپنا مقام بنا لیتی ہیں۔اس طرح شوہرکی فرماں بردارعورتیں بلآخر خاوند کو اپنا تعبدار بنا  ہی لیتی ہیں ۔فرمان برداری کی صفات کی وجہ سے عورت اپنے خاوند کے دل کی ملکہ بن سکتی ہیں۔عاجزی اللہ  کو بھی پسند ہے  اس سلسلے میں ایک بات یاد رکھیں کہ کبھی غصے میں آئے شوہر کو نہ لاجک دیں نہ ہی طعنہ دیں ان کی اتنی محبت ہو جاتی ہے کہ خاوند اس کی ہر مرضی کو پورا کر کے دکھاتا ہے  اور ان کی خدمات کا اعتراف کیونکہ یہ جلتی  پر پٹرول ڈالنا ہے ۔اس سلسلے  میں رکاوٹ جو بنتی ہے وہ انانیت ہوتی ہے ضد ہوتی ہے ، ساری دنیا کے ساتھ ضد کرلو اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا کہ خاوند کے ساتھ ضد کرنے سے ہوتا ہےاپنے دل میں خاوند کے لئے ہمیشہ محبت رکھیں  اس کے عیبوں کے باوجود اس  سے محبت کریں ایک دن آپ کی محبت اس کو ضرور نیکی کی طرف لے آئے گی جبکہ جھگڑے اس کو مزید برا بنا دیں گے ۔ایک بات  ہمیشہ  یاد رکھیں کہ جتنی نیک نیت آپ ہوں گی اس کا اثر آپ کے خاوند کے دل پر ضرور پڑے گا آپ کے دل میں شوہر کی عظمت ہو گی  تو اس کا اثر شوہر پر ضرور پڑے گا۔اسے کہتے ہیں کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے آپ کے دل میں کسی کے لئے محبت کا جذبہ  ہے تو یہ محبت کا میسج اگلے کو آٹو میٹیکلی ہی پہنچ جاتا ہے۔

جسے پیا چاہے وہی سہاگن


جسے پیا چاہے وہی سہاگن
ایک اچھی اور سمجھداربیوی ایک بہترین ماہر نفسیات بھی ضروری  ہوتی ہے۔عورت کے لئےفقط یہ بات کہ میں خوبصورت ہوں یہ کافی نہیں ہوتا شوہر کا دل خوش کرنے  کے لئے صرف چمکتا  دمکتا حسن ہی کافی نہیں ہوتا  دیکھا یہ گیا ہے کہ   بعض بیویاں بالکل نارمل شکل و صورت کی ہوتی ہیں مگر شوہر کے دل پر راج کرتی ہیں ۔اسی لئے یہ مقولہ ہے کہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن ۔ کہا جاتا ہے کہ عورت کی شکل  لوگ بس دو موقعوں پر دیکھتے ہیں ایک شاد ی والے  دن دوسرا جب  رشتہ لینے جاتے ہیں۔باقی ساری عمر اس کی عقل دیکھی جاتی ہے۔

Friday 13 July 2012

دوسروں کی حاجت روائی کرنا


حدیث شریف میں ہے  اللہ تعالی کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل کسی مسلمان کا دل خوش کرنا  ہے ،
ایک اورحدیث پاک میں ہے جب آدمی کسی مومن کا دل خوش کرتا ہے تو اللہ پاک اس خوشی سے ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اللہ پاک کی عبادت کرتا ہے پس جب اس بندے کی موت ہوتی ہے  اور اسے قبر میں منتقل کیا جاتا ہےتو  وہ فرشتہ  اس بندے کے پاس جاتاہے  بندہ کہے گا تو کون ہے تو وہ  کہے گا میں میں وہ خوشی ہوں جو تو  نے فلاں شخص کے دل میں پیدا کی، آج میں تیری وحشت کو انس میں تبدیل کروں گی اور تجھ کو کلمہ شہادت پر ثابت قدم رکھوں گی قیامت کے دن حاضری کے مقامات پر تیرے ساتھ رہوں گی تجھ کو جنت میں تیرا مقام دکھاؤں گی ۔
رسول پاک ﷺ سے کسی صحابی رض نے  ایک خوبصورت سوال پوچھا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے لوگ جنت  میں جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا  وہ چیز اللہ تعالی سے ڈرنا یعنی تقوی  اور اچھے اخلاق ہیں۔
پھر  پوچھا کہ وہ کون سے اعمال ہیں جو جہنم میں جانے کا سبب بنیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا  وہ منہ اور شرم گاہ ہے۔
خوش خلقی یعنی اچھا اخلاق ایسی نعمت ہے وجہ کہ انسان کو جنت میں لے جا کر چھوڑتا ہے،بخاری شریف کی روایت ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک زانیہ عورت کی مغفرت ایسے ہوئی کہ وہ راستے سے گزر رہی تھی اس نے دیکھا ایک کتا کنویں کے پاس بیٹھا ہوا ہے پیاس کی شدت سے اس کی زبان باہر لٹک رہی تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ بیاس کی شدت سے مر ہی جائے گا،اس عورت نے اپنا جوتا نکالا  اور اس کا ڈول بنا کر کنویں سے پانی نکالا اور اس کتے کو پانی پلایا اس کے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس کے سارے گناہ معاف کر دیے۔
بخاری شریف کی ایک اور روایت ہے ابو ہریرہ رض اس کےراوی ہیں  ایک آدمی نے ایک کتے  کو دیکھا جو گیلی مٹی کو پیاس کی شدت سے چاٹ رہا تھا پانی کہیں قریب موجود نہ تھا ،اس آدمی نے اپنا جوتا اتارا اور اس میں کہیں سے پانی لے کر آیا اور اس کتے کو پلایا اس پر اس آدمی اللہ نے جنت عطا فرمائی۔۔

پیاسے کتے کو پانی پلانے پر  اگر جنت مل گئ تو کیا پیاسےبندے کو پانی پلانے پر  جنت نہیں ملے گی کسی پریشان حال بندے کی پریشانی مٹانے پر جنت نہیں ملے گی؟؟؟
مسلم شریف کی حدیث ہے کہ ایک بندہ راستے سے گزر رہا تھا اس نے راستے میں دیکھا کہ ایک درخت کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں اس طرح کہ مسافروں کو گزرنے میں مشکل پیش آ رہی   تھی اس شخص نے اس کو کاٹ دیا کہ مسلمانوں کے راستے سے ہٹ جائےان کو تکلیف نہ پہنچائےاس کے اس عمل کی وجہ سے اس کو جنت مل گئی۔3
ان احادیث کی وجہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کسی کی حاجت روائی کرے کسی کی تکلیف دور کردے تو اللہ ان کے اس عمل کو جنت میں جانے کا ذریعہ بنا دیتے  ہیں ۔
بخاری اور مسلم کی روایت ہےنبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو کسی کی حاجت روائی میں رہتا ہے اللہ تعالی اس بندےکی حاجت روائی میں رہتا ہے،اور جس نے کسی کا غم دور کیا اللہ تعالی اس کے بدلے قیامت کے غموں میں سے کوئی غم دور کردے گا۔اور جس  شخص نے کسی مسلمان کےبدن یا عیب کی پردہ پوشی کی اللہ رب العزت قیامت کے دن اس بندے کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔
تبرانی کی روایت ہے بے شک اللہ تعالی کی کچھ مخلوق ہے جن کواللہ تعالی نے دوسروں کی حاجت روائی کے لئے  ہی پیدا کیا ہے بندے اپنی پریشانیوں میں ان کی طرف رجوع کرتے ہیں یہ لوگ اللہ کے عذاب سے قیامت کے دن امن میں رہیں گے۔
تبرانی  کی  ہی روایت ہے،حدیث پاک میں ہے بے شک اللہ کے کچھ لوگ ہیں جن کو اللہ کی مخلوق کے فائدے کے لئے نعمتوں کےساتھ پیدا کیا    جب تک وہ ان نعمتوں کو اللہ کے بندوں پر خرچ کرتے رہیں گے  اللہ ان کو ان نعمتوں پر برقرار رکھے گا مگر جب وہ ان نعمتوں کو  خرچ کرنے سے روک لیں گےاللہ ان نعمتوں کو ان سے روک لے گا اور دوسرے کی طرف منتقل کر دے گے  ۔تو اللہ پاک کچھ بندوں کو مال اس لئے ذیادہ دیتا ہےکہ دوسروں تک پہنچائیں آج کتنے لوگ ایسے ہیں کہ کہتے ہیں کہ  بڑا اچھا کاروبار تھا اچانک ختم ہوگیا ۔
حدیث پاک میں ہے کہ جو اپنے  بھائی کی حاجت روائی میں چلا  یعنی اس نے کوشش کی  تو یہ اس کے لئے دس سال کے  اعتکاف سے بہتر ہے  اور ایک دن کے اعتکاف کا ثواب یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کےاور دوزخ کے درمیان  تین خندق کا فاصلہ پیدا کر دے گا ہر خندق دوسری سے اتنے فاصلے  پر ہو گی  جتنا زمین کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ،اس کو حاکم نے روایت کیا۔
نیز حدیث شریف میں ہے جس نے کسی  مسلمان کی حاجت روائی کی کوشش کی  اللہ پاک اس کے ہر قدم پر ستر نیکیاں لکھے گا ستر گناہ معاف کروا دے یہاں تک  جہاں تک وہ چلا تھا وہاں واپس آ جائے اور اگر  اس کو پورا کر دیا  تو اللہ پاک اس کو ایسے گناہوں سے پاک  کر دے گا جیسے ابھی  ماں نے اس کو جنم دیا  ہو،کسی مسلمان کے دکھ کو دور کرنے کا کتنا ثواب ہے اور اگر اس آدی کو اس مقصد کے دوران ہی موت آ گئی تو   یہ شخص جنت میں بغیر حساب کتاب کے داخل ہو گا ۔
تبرانی نے روایت کیا ہے رسول ﷺ نے فرمایا  جو آدمی کسی مسلمان کی کسی تنگی یا پریشانی کو دور کرنے حاکم  یا صاحب  اقتدار کے پاس پہنچا ا تو اللہ اس کو  قیامت کے دن پل  صراط سے گزرنے میں اس کی مدد فرمائیں گے جب سب کے قدم لڑکھڑا رہے ہوں گے۔
دعا اعوان

                    


                                              

Saturday 7 July 2012

کھجور کا درخت اور انسان


کھجور اور انسان

کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب انسان کو بنایا تو اس کی ناف میں جو گڑھا ہے وہاں سے مٹی نکال کر پھینک دی تو اس مٹی میں شیطان نے اپنا لعاب دہن ملا دیا بھر اس مٹی سے کتا بنایا گیا۔اسی لئے کتے میں وفاداری اور صفات لاجواب ہیں لیکن خونخواری ہے ،اور انسان کے جسم سے جو مٹی بچی اس سے کھجور کا درخت بنایا گیا۔ہمارے رسول ﷺ کی ایک ایک ادا ذندہ رہے گی اس کھجور کو رسول ﷺ سے نسبت ہے ۔انسان کو ہر طرف سے کاٹو نہیں مرتا انسان کا سر کاٹ دو مر جاتا ہے اسی طرح کھجور کو ہر طرف سے کاٹو نہیں مرتا کھجور کو سر سے کاٹو مر جاتا ہے،
 


حضرت عبداللہ بن عمر رض سے منقول ہے کہ ہم آنحضورﷺ کے پاس بیٹھے تھے آپﷺ نے فرمایا
 کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کا پت جھڑ نہیں ہوتا اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے، تو تم مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے؟“ تو لوگ جنگلی درختوں (کے خیال) میں پڑ گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا، بالآخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہی ہمیں بتائیے کہ وہ کون سا درخت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 56

تاریخ اسلام میں سب سے پہلا ہارٹ اٹیک حضرت سعد بن ابی وقاص کو ہوا نبی اکرم ﷺنے ان کاعلاج عجوہ کھجور کی گٹھلیاں کھلا کر کیا اور وہ مکمل طور پر صحت مند ہوگئے۔
عجوہ آج بھی مدینہ کی عمدہ ترین،لذیز ترین اور انتہائی مہنگی کھجور ہے۔
حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ “جس گھر میں کھجوریں نہ ہوں وہ گھر ایسا ہے کہ جیسے اس میں کھانا نہ ہو،اور جدید سائنس نے اب یہ بات ثابت کردی ہے کہ کھجور ایک ایسی منفرد خوراک ہے جس میں ہمارے جسم کے تمام ضروری غذائی اجزاءوافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ نہار منہ اس کے سات عدد کھانے میں زہر اور سحر سے حفاظت ہوگی۔
دعا اعوان