Friday 11 October 2013

جاوید احمد غامدی کے باطل عقائد ونظریات

Fitna of Javed Ahmed Ghamidi

جاوید احمد غامدی کے باطل عقائد ونظریات

ہمارے زمانے میں فتنۂ انکار حدیث کی آبیاری کرنے والوں میں ایک بڑا  نام جاوید احمد غامدی صاحب کا بھی ہے 

اس شخصیت کی تلاش میں کچھ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی ٹی وی چینل کھول لیں اس پر دینی اقدار  کے خلاف اپنی سوچ کو بطور حجت پیش کرتے ہوئے جو شخص دکھائی دے وہی حکومت کا فیضی یعنی (علامہ) جاوید غامدی ہے۔جن کا سنت کی تعریف سے لے کر قرآن حکیم تک اُمت سے اختلاف ہے اور موصوف کا دعوٰی ہے کہ چودہ سوبرس میں دین کی کو ان کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔جاوید احمد غامدی صاحب دورِ حاضر کے فتنوں میں ایک عظیم فتنہ ہیں۔ خصوصی طور پر ہمارا نوجوان ، دنیاوی تعلیم یافتہ ، اردو دان طبقہ کافی حد تک اس فتنہ کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔

فی زمانہ غامدی فکر ایک مکمل مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے 

یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ (Miderbusts) ہے۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ بھیڑ کے روپ میں ایک بھیڑیا ہے

 

برصغیر پاک و ہند میں اس فتنے کی ابتدا سرسید احمد خان نے کی۔ پھر ان کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداﷲ چکڑالوی اور شیخ اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز تک پہنچتا ہے۔

‎ جو لوگ بے عملى كا شكار ہوتے ہيں وہ دين اور دينى احكام كا ذكر آنے پر کسی آسانی کی تلاش میں رہتے ہيں اور كسى ايسى پناہ كى تلاش ميں ہوتے ہيں جو اس احساس سے ان كى جان چھڑا دے۔۔ ايسے ميں يہ نام نہاد سكالرز ان  كے كام آتے ہيں اور

خود بدلتے نہيں قرآں كو بدل ديتے ہيں 

دین اور اہل ِ دین سے دوری کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نفس اور شیطان انسان پر حاوی ہوکر اسے خواہش پرست اور آزادی پسند بنادیتے ہیں۔ ایسا انسان جس چیز کو اپنی غرض، خواہش اور مشن کے لئے سد ِ راہ اور رکاوٹ خیال کرتا ہے، غلط تاویلات اور فاسد خیالات کے ذریعہ اس کا انکار کردیتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا

 

 قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ 

وما اٰتٰکم الرسول فاخذوہ ومانہٰکم عنہ فانتھوا (اعشر آیت 59، ع 7)

ترجمہ: رسول جو کچھ تمہیں دیں، اس کو لے لو، اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہو۔

غامدی صاحب نہ صرف منکر ِحدیث ہیں بلکہ اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کے علمبردار ہیں ۔  یہ صاحب  اپنی چرب زبانی کے ذریعے اس فتنے کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اُن کو الیکٹرانک میڈیاکی توجہ و سرپرستی حاصل ہے۔

غامدی صاحب کے منکر ِحدیث ہونے کے کئی وجوہات ہیں ۔ وہ اپنے من گھڑت اُصولِ حدیث رکھتے ہیں ۔ حدیث و سنت کی اصطلاحات کی معنوی تحریف کرتے ہیں اورہزاروں اَحادیث ِصحیحہ کی حجیت کا انکار کرتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نسل اور عوام کی ایک بڑی تعداد پہلے ہاتھ ہی یہ کہہ دیتی ہے کہ احادیث میں تو تضاد ہے۔یہی وہ پہلا خفیہ پینترا ہے جس کے ذریعے پھر بڑی چابک دستی کے ساتھ انکار حدیث کی راہ ہموار ہوجاتی ہے

اگر ہم نے پیغبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حفاظت نہ کی تو معاذ اللہ ایک ایسا دور آجائے گا کہ جس میں لوگ حدیث کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں گے کہ بھئی یہ تو ظنی علم ہے نہ معلوم درست ہے یا غلط اس لئے ہمارے لئے صرف اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔حفاظتِ حدیث کے متعلق میری رائے ذرا مختلف ہے کہ اسکی مطلق حفاظت تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے مگر زمانے کے ساتھ ساتھ اس مبارک مجموعہ کی حفاظت ہماری اہم ذمہ داریوں میں سے ہے اور جس طرح کہ ماضی میں اسکی کئی ایک مثالیں موجود ہیں اگر امام بخاری امام مسلم اور دیگر ائمہ کرام اسکی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیتے اور ایک ایک حدیث کو تلاش کرنے کیلئے اپنا تن من اور دھن قربان نہ کرتے تو آج آپ مبادا ان بیش بہا کتب سے محروم رہتیں۔۔۔

غامدی صاحب کے نظریات باطلہ و عقائد فاسدہ

(1) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں (میزان ص 32,26,25، طبع دوم اپریل 2002)

(2) سنت قرآن سے مقدم ہے (میزان ص 52، طبع دوم اپریل 2002)

غامدی صاحب کے ہاں یہ کھلا تضاد موجود ہے کہ وہ کبھی قرآن کو سنت پر مقدم مانتے ہیں، اور کبھی سنت کو قرآن سے مقدم قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک جگہ قرآن کو ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہر شخص پابندہے کہ اس (قرآن) پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹھرائے‘‘ (میزان ص 23، طبع دوم اپریل 2002)

پھر اسی کتاب (میزان) میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’سنت قرآن سے مقدم قرآن کے بعد نہیں‘‘ (ص 52)

یہاں غامدی صاحب نے دونوں مقامات پر حرف ’’پر‘‘ اور حرف ’’سے‘‘ کا مغالطہ دیا ہے، مگر یہ مغالطہ اس وقت صرف مغالطہ نہیں رہتا بلکہ ایک کھلا تضاد بن کر سامنے آتا ہے جب اسے اردو زبان کے درج ذیل جملوں کی روشنی میں دیکھا جائے۔

 (1) اﷲ تعالیٰ پر کسی چیز کو مقدم نہیں ٹھہرانا چاہئے۔

(2) نبیﷺ اﷲ تعالیٰ سے مقدم ہے

کیا جو شخص اردو زبان جانتاہو، مذکورہ بالا جملوں میں کھلا تضاد نہ پائے گا؟

(3) سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے (میزان ص 10،65، طبع دوم)

(4) سنت صرف 27 اعمال کا نام ہے (میزان ص 10، طبع دوم)

سنتیں جب گھٹ گئیں تو دین کامل ہوگیا

غامدی کو گوہر مقصود حاصل ہوگیا

(5) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے ہوتا ہے (میزان ص10طبع دوم)

(6) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا (میزان ص 64 طبع دوم)

(7) دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں (میزان ص 48 طبع دوم)

اسلام میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ماخذ شریعت ہیں

(8) دین میں معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے (میزان ص 49)

(9) نبیﷺ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا (ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)

جھوٹے نبوت کے داعی ان کے عقائد و زعم باطلہ میں غیر مسلم نہیں

(10) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے (قانون عبادات، ص 119)

(11) اسلام میں موت کی سزا صرف دوجہ ائم (قتل نض، اور فساد فی الارض) پردی جاسکتی ہے (برہان، ص 143، طبع چہارم، جون2006)

غامدی صاحب کے نزدیک مرتد اور شاتم رسول کی سزا موت نہیں ہے

(12) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا (برہان ص 19,18، طبع چہارم)

(13) قتل خطاء میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے، یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے (برہان ص 19,18، طبع چہارم)

(14) عورت اور مرد کی دیت (Blood Momey) برابر ہوگی (برہان ص 18، طبع چہارم)

(15) مرتد کے لئے قتل کی سزا نہیں ہے (برہان، ص 40، طبع چہارم)

(16) شادی شدہ اور کنواری ماں زانی دونوں کے لئے ایک ہی سزا  100 کوڑے ہیں (میزان ص 299، 300 طبع دوم)

(17) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے (برہان ص 138، طبع چہارم)

(18) غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں (میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)

(19) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)

(20) اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کو والدین یا بیوی (یا شوہر) کے حصوں سے بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا، ان کو کل ترکے کا دو تہائی 2/3 نہیں ملے گا (میزان، حصہ اول ص 70، مئی 1985) (میزان ص 168، طبع دوم اپریل 2002)

(21) عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں (ماہنامہ اشراق، مئی 2002ص 47)

(22) کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون، مردار، سور کا گوشت، غیر اﷲ، کے نام کا ذبیحہ (میزان ص 311 طبع دوم)

(23) بعض انبیاء کرام قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا (میزان حصہ اول، ص 21، طبع 1985)

(24) حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں (میزان حصہ اول، 24,23,22 طبع 1985)

(25) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی  اقوام ہیں (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)

(یاد رہے کہ یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ دونوں الگ الگ ہیں) جبکہ دجال احادیث کی رو سے یہودی شخص ہے جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر (ک،ف،ر) لکھا ہوگا جوکہ ہر مومن شخص پڑھ کر اس کو پہچان لے گا

(26) جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے (ادارہ الحورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ص 30)

(27) موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004 ص 19,8)

(28) عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)

(29) اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے (میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)

دوم اپریل 2002(30) کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں (میزان ص 270، طبع

 

آخر میں ہم خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں تادم مرگ ایمان کامل کے ساتھ رکھے،ہدایت کو ہمارا مقدر بنائے، سرکشوں، بدمذہبوں کی صحبتوں اور ان کے وار، مکرو  فریب سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ اگر ہدایت ان کا مقدر ہے تو جلد انہیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرمادے ورنہ انہیں ان کے انجام بد تک پہنچائے۔