Saturday 30 June 2012

موسیقی کے اثرات

جنات اور شیاطین میں نیک بھی ہیں بد بھی ان میں سے بد صرف وہاں جاتے ہیں جہاں صرف اور صرف ،موسیقی ہوتی ہے ایک سائینی ریسرچ کے مطابق ایک جھیل کے کنارےمچھیرے شکار کھیلتے تھے اور مچھلی کی ایک ڈش بنتی تھی مگر کچھ عرصے بعد ان کی مچھلی میں لذت نہ رہی اور گاہکوں کی امد کم ہو گئی تو انہوں نے محسوس کیا کہ ایسا کیوں ہے؟انہوں نے ریسرچ کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اس جھیل کے کنارے موسیقی کا بہت بڑا نظام بنایا گیا تھا اس موسیقی کی آواز کے مچھلیوں پر یہ اثرات ہوئے کہ ان میں سے لذت ختم ہو گئی انہوں نے جب پریکٹیکل وہ نظام ہٹایا مچھلیوں میں لذت واپس آ گئی ۔

موسیقی شیطانی رقص


آدم ع کو اللہ نے زمین پر بھیجا مگر حضرت آدم ع نے جنت کی ساری نعمتیں دیکھ لیں وہاں کی راحتیں دیکھ لیں پھر جب آدم ع اس دنیا میں تشریف لائے تو ان کی طبیعت میں ان  نعمتوں کی طرف رغبت ائی ان میں سے ایک نعمت موسیقی ہے،جنت میں درختوں کے پتے بجیں گے اور ان سے خوبصورت ساز نکلیں گے وہاں پاکیزہ ساز ہوں گے اس نعمت کو اللہ بے جنت کے لئے پیدا کیا ہم نے ان کو دنیا کے لئے سمجھ لیا موسیقی روح کی غذا ہے مگر جنتیوں کے لئے،موسیقی کیاہے؟َ آواز ہی تو ہے ،شیر کی چنگاڑ آواز ہی تو ہے دہشت پھی؛ا دیتی ہے بچے کے رونے کی آواز ہی تو ہے ،ماں کے دل کو ہلا دیتی ہےآواز سے ذندگی کا نظام بدل جاتا ہے۔موسیقی بدکاری کا منتر ہے،جیسے جادوگر کہتا ہے کہ  میں نے منتر پڑھا وہ چیز سامنے آگئی ،تو موسیقی بدکاری کا منتر ہے اور شیطانی چیزیں موسیقی کے ساتھ ہوتی ہیں اور جہاں موسیقی ہو وہاں شیطانی چیزوں کا رقص ہوتا ہے
جن کانوں سے موسیقی سنی جاتی ہے شیاطین ان کانوں سے داخل ہوتے ہیں اور پورے جسم کو بیماریوں کا گھر بنا دیتے ہیں احادیث میں ہے شیطان انسان ک ناک میں رات گزارتا ہے جب انسان فجر کی نماز کے لئے وضو کرتا ہے  تو وہ ناک سے نکل جاتا ہے ،یہ اللہ کی حفاظت ہےلہ اپنی حفاظت ہٹالے تونجانے ہمارے ساتھ کیا ہو۔کچھ لوگوں بارے میں سنا ہے کہ ان کو قوالی یا موسیقی سے وجد آتا ہے، میرا ان سے سوال ہے کہ کیا ان کو کبھی قرآن کی آواز پر وجد آیا؟؟؟
تو معلوم ہوا  کہ یہ شیطانی وجد ہے،سارے عالم میں امن کا پیکج یہ ہے کہ موسیقی کو اپنی ذندگی سے  اپنے گھر سے نکال دیں ورنہ اسی طرح لاعلاج 
 بیماریاں اور مصائب جنم لیتے رہیں گے .

 
         

Thursday 28 June 2012

فتنۂ دجال

جمعتہ المبارک کو سورہ کہف کی تلاوت کرنے والے انسان(مسلمان) سب سے بڑے فتنہ یعنی فتنۂ دجال سے بچ جائے گا. اس بات پر علماء کا اتفاق ھے کہ فتنۂ دجال ابتدائے انسانیت سے قیامت تک کا سب سے بڑا فتنہ ھے. کانا دجال خدائی کا دعوی کرے گا، وہ جہاں پاؤں مارے وھاں سے سونا نکلے گا، مردوں کو زندہ کر سکے گا، انسانوں کو بھوکوں مار کے اپنے آگے سجدہ کرنے پے مجبور کرے گا. تو آئیں سورہ کہف کی تلاوت کو ھر جمعہ میں معمول بنائیں. اگر پوری سورہ تلاوت کرنا مشکل ھو تو اس سورہ مبارکہ کا پہلا اور آخری رکوع تلاوت کرنے سے بھی یہ فضیلتیں حاصل ھوں گی.

دعائیں اور بدعائیں

ایک بات ہمیشہ یاد رکیں بدعائیں بھی تعاقب کرتی ہیں اور دعائیں بھی تعاقب کرتی ہیں
حضرت عمر رض اسلام کے سلسلے کو ختم کرنے چلے تھے مگر نبیﷺ کی دعا ان کے تعاقب میں تھی کہ حضورﷺ نے دعا کی تھی کہ وہ ایمان لے آئیں دعائیں کام کر رہی تھیں اور وہ ایمان لے آئے۔
دعاؤں نے حضرت عمررض جیسے جلالی کے دل کی دنیا بدل دی ۔

شیطان نے قے کر دی

شیطان نے قے کر دی
حضرت امیہ بن محنشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک صحابی کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے بسم اللّٰہ پڑھے بغیر کھانا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ سارا کھانا کھا لیا۔ صرف ایک لقمہ باقی رہ گیا۔ جب وہصحابی اس آخری لقمے کو منہ کی طرف لے جانے لگے تو اس وقت انہیں یاد آیا کہ میں نے کھانا شروع کرنے سے پہلے بے دھیانی کی وجہ سے بسم اللہ نہیں پڑھی تھی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ جب آدمی کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو کھانے کے دوران جب اس کو بسم اللہ پڑھنا یاد آئے تو اس وقت ”بِسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہ وَ آخِرَہ “ پڑھ لے جب انہوں نے یہ دعا پڑھی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر مسکرائے۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت یہ کھانا کھا رہے تھے تو شیطان بھی ان کے ساتھ کھا رہا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اللہ کا نام لیا اور ”بِسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہ وَ آخِرَہ “ پڑھ لیا تو شیطان نے جو کچھ کھایا اس کی قے (الٹی) کر دی اور اس کھانے میں اس کا جو حصہ تھا، اس ایک چھوٹے جملے سے ختم ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس منظر کو دیکھ کر مسکرائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سکھائی کہ آدمی اگر کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آ جائے اس وقت ”بِسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہ وَ آخِرَہ “ پڑھ لے اس کی وجہ سے اس کھانے کی بے برکتی ختم ہو جائے گی اور شیطان کا اس کھانے میںکچھ حصہ نہیں ہوگا۔ (ابوداﺅد شریف)

قلم کا حق

ایک ’’جدید مدبر‘‘ نے کہا: اگر قلم کا حق ادا کرو گے تو ’’سرقلم‘‘ کر دیا جائے گا۔

تیری عظمتوں سے ہوں بے خبر

تیری عظمتوں سے ہوں بے خبر


تیری عظمتوں سے ہوں بے خبر
یہ میری نظر کا قصور ہے !
تیری راہ گزر میں قدم قدم
کہیں عرش ہے کہیں طور ہے !
یہ بجا ہے مالک دو جہاں
میری بندگی میں قصور ہے !
یہ خطہ ہے میری خطہ مگر
تیرا نام بھی تو غفور ہے
یہ بتا تجھ سے ملوں کہاں
مجھے تجھ سے ملنا ضرور ہے !
کہیں دل کی شرط نا ڈالنا !
ابھی دل گناہوں سے چور ہے !
تو بخش دے میرے سب گناہ !
تیری ذات رحیم و غفور ہے ! آمین

جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانئہ دل کے مکینوں میں
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں
کہ لیلیٰ کیطرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی
الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں
تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
ترستی ہے نگاہِ نارسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انہیں خلوت گزینوں میں
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو
کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ نشینوں میں
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں
خاموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
برا سمجھوں انہیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
علامہ محمد اقبال

حضرت علی علیہ السلام کاعہد حکومت

حضرت علی علیہ السلام کاعہد حکومت

Hazrat Ali
حضرت علی علیہ السلام کی ولادت 13رجب 30عام الفیل مطابق 600عیسوی بروز جمعہ بمقام اندرون خانہ کعبہ ہوئی۔ آپ کے دادا عبدالملطب اور والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ آپ دونوں طرف سے ہاشمی ہیں۔ مورخین عالم نے آپ کے خانہ کعبہ میں پیدا ہونے کے بارے میں کبھی کسی طرح کا اختلاف نہیں کیا بلکہ بالاتفاق کہتے ہیں کہ لم یولد قبلہ ولد مولود فی بیت الحرام ۔ (مستدرک حاکم جلد سوم صفحہ 483)
آپ کی کنیت والقاب بے شمار ہیں۔ کنیت ابوالحسن، ابوتر اب اور القاب امیر المومنین، المرتضیٰ، اسد اللہ، ید اللہ، حیدر کرار، نقش رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ساقئی کوثر مشہور ہیں۔
مولانا ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
خلافت کی پوری مدت کو ایک مسلسل مجاہدہ، ایک کشمکش، ایک مسلسل سفر میں گزارنا، لیکن نہ تھکنا، نہ مایوس ہونا، نہ بددل ہونا، نہ شکایت کرنا، نہ راحت کی طلب، نہ محنت کا شکوہ، نہ دوستوں کا گلہ نہ دشمن کی بدگوئی، مدح سے بے پرواہ، جان سے بے پرواہ، انجام سے بے پرواہ، ماضی کا غم نہ مستقبل کا اندیشہ، فرض کا ایک احساس مسلسل سعی کا ایک سلسلہ غیر منقطع، دریا کا قہر، سورج اور چاند کی سی پابندی، ہواؤں اور بادلوں جیسی فرض شناسی۔
معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ذوالفقار ان کے ہاتھ میں سرگرم اور بے زبان ہے اسی طرح وہ کسی اور ہستی کے دست قدرت میں سرگرم عمل اور شکوہ و شکایات سے ناآشنا ہیں۔ ایمان و اطاعت کا وہ مقام جو صد فیصد یقین کا حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا پہچاننا اور ان نزاکتوں اور مشکلات سے واقف ہونا بڑے صاحب نظر اور صاحب ذوق کا کام ہے۔ اس لئے ان کی زندگی اور ان کی عظیم شخصیت کا پہچاننا بڑا امتحان ہے۔ (المرتضیٰ)
علی علیہ السلام کی سخاوت اور طبیعت کی خود مختاری کا یہ عالم تھا کہ افلاس او رفاقہ کے دنوں میں بھی جو کچھ وہ دن بھر کی مزدوری کے بعد حاصل کرتے تھے اس کا ایک بڑا حصہ غریب اور فاقہ کش لوگوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد امت مسلمہ نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کرنے پراتفاق کیا۔ جذبات میں بھرے لوگ حضرت علی علیہ السلام کی جانب دوڑ پڑے لیکن آپ نے ان کی بات ٹھکراتے ہوئے فرمایا مجھے چھوڑ دو کسی اور کے پاس جاؤ۔ حضرت علی علیہ السلام جذبات کا اسیر ہونا نہیں چاہتے تھے۔ جذبات کی شدت میں کیا جانے والا فیصلہ پسند نہیں تھا۔ حضرت علی علیہ السلام ان لوگوں میں سے تھے جنہیں عہدہ فریب میں مبتلا نہیں کرسکتا ۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو کرنسی کی چاہ میں دیوانے ہوجاتے ہیں۔ ان کی نظر میں حکومت اور خلافت کی بات تو دوران کے نزدیک پوری دنیا بکری کی چھینک کی طرح تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میری نظر میں ایسی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں جو حق کو قائم کرنے اور باطل کے خاتمہ سے قاصر ہو۔
اسلامی دارالحکومت مدینہ منورہ کے لوگوں نے آپ پر خلافت قبول کرنے کے لئے اتنا زور ڈالا کہ آہستہ آہستہ اس نے مظاہرہ کی شکل اختیار کرلی۔ یہ مطالبہ جماعتی حدوں سے نکل کر اجتماعی حدود کو چھونے لگا جس کے بعد امت مسلمہ کی بیعت اپنی طرف سے عائد کردہ شرائط کے ساتھ قبول کرلی۔ علی علیہ السلام نے کہا کہ یہ جان لو کہ اگر تمہاری بات قبول کر بھی لی تو وہی کروں گا جس کا مجھے علم ہوگا۔ نہ کسی کہنے والے کی بات پر کان دھروں گا۔ اور نہ ہی کسی سرزنش کرنے والے کی پرواہ کروں گا۔ امت نے فوراً اطاعت کے وعدے کے ساتھ بیعت کے لئے ہاتھ بڑھا دیئے۔ علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے گورنر وں اور سیاسی عہدیداروں کے لئے امت اسلام کے نظام کو بہتر طریقہ سے چلانے کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کیا۔ (نہج البلاغہ)۔
گورنر کے لئے یہ شائستہ نہیں کہ وہ مسلمانوں کی عورتوں، ان کی دولتوں سے امیدیں لگا بیٹھے اور نہ اسے جاہل ہونا چاہے۔ اس طرح وہ لوگوں سے ظلم کی وجہ سے دور ہو جائے گا اور نہ اسے سرکاری دولت کی تقسیم میں طرفداری کرنا چاہئے۔ اس طرح وہ کچھ لوگوں کو اپنے قریب کرے گا اور کچھ لوگوں کو دور کردے گا اور نہ گورنر کو رشوت لینا چاہئے کہ اس اس طرح وہ حقوق ضائع کردے گا اور غیر مستحق کو حقوق عطا کردے گا اور نہ اسے سنتوں کو معطل کرنے والا ہونا چاہئے کہ اس طرح امت ہلاک ہوجائے گی۔ (نہج البلاغہ خطبہ نمبر 131)
حضرت علی علیہ السلام نے زمام حکومت سنبھالتے ہی دوسرا کام یہ کیا کہ ان گورنروں اور عمال کو معزول کردیا جو لوگوں پر ظلم کرتے تھے او رغلط تاکہ امت مسلمہ کے ساتھ عطا یا اور حق میں ویسا ہی برابری کا برتاؤ کیا جائے جیسا کہ نبی کریم حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ آپ نے اعلان کر دیا کہ عنقریب بیت المال سے غصب کئے گئے تمام اموال کو واپس اسلامی خزانہ میں لے آؤں گا یہاں تک کہ اگر کسی نے اس کے ذریعہ شادی کرلی ہو یا کنیز خریدلی ہوتب بھی۔(محمد عبدہ شرح نہج البلاغہ جلد 8صفحہ 269)
امام علی علیہ السلام نے اسلامی حیات کی اصلاح اور نظام کو درست کرنے کےلئے ایسے گورنروں کا تقرر کیا جو روحانی، فکری اور احکامات خداوندی کے لحاظ سے نمونہ کی حیثیت رکھتے تھے جیسے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور مالک اشتر وغیرہ۔
Hazrat Ali
حضرت علی علیہ السلام کے ان اصلاحی اقدامات کی وجہ سے جو حقیقی اسلام کی عکاسی کرتے تھے کچھ لوگوں نے آپ سے ساز باز کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی۔ انہوں نے ولیدبن ابی معیط کو اپنا نمائندہ بنا کر علی علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ اس نے آپ سے کہا کہ اے ابو الحسن علیہ السلام! تم نے ہم سب کو ایک دم چھوڑ دیا حالانکہ ہم تمہارے بھائی اور عبد مناف کے خاندان سے ہونے کی بنا پر تمہارے برابر ہیں۔ ہم تمہاری بیعت اس شرط پر کریں گے کہ تم عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہمیں ملنے والی دولت ہمارے ہی پاس رہنے دو۔ اگر ہمیں تم سے خوف محسوس ہوگا تو ہم تمہیں چھوڑ کر شام چلے جائیں گے اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان کے مطالبے کو نہ مانا گیا تو ہم تمہیں چھوڑ کر شام چلے جائیں گے اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان کے مطالبے کو نہ مانا گیا تو وہ شام کے باغیوں سے جا ملیں گے لیکن علی علیہ السلام نے ان کی دھمکی پر کوئی توجہ نہ دی۔ آپ کا جواب تھا میرے نزدیک آل اسماعیل علیہ السلام کو اس مال میں آل اسحاق علیہ السلام پر کوئی فضیلت نہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت میں جس طرح کے نمونہ عمل عاملوں اور گورنروں کا تقرر کیا وہ سب کے سب فکری، ادارتی اور فوجی معاملات میں قدرت رکھتے تھے۔ آپ نے گورنروں کو ہمیشہ نصیحت کی کہ بندگان خدا کے درمیان عدل وانصاف کے رواج او رظلم وجور سے پرہیز کرنے کی فضا قائم کرنا۔ اس کے علاوہ اپنے عاملوں او رگورنروں کو یہ نصیحت کی کہ وہ ان چیزوں سے دور رہیں جو منصب حاصل ہونے کے بعد خود بخود پیدا ہوتی ہیں جب کہ مقام و منصف ایک عارضی حیثیت کا نام ہے۔ آپ نے محمد ابن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا جب انہیں مصر کا گورنر مقرر کیا تھا جس میں ہدایت تھی کہ لوگوں سے انکساری اور تواضع سے ملنا۔ ان سے نرمی کاسلوک کرنا۔ چہرے کو ہشاش بشاش رکھنا۔ سب کو ایک نظر سے دیکھنا تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی طرفداری کی توقع نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہاری عدل سے مایوس نہ ہوں کیونکہ خدا ہر چھوٹے بڑے ،ظاہری اور ڈھکے چھپے عمل کا حساب لے گا۔ اس کے بعد اگر اس نے سزادی تو تم خود ظالم تھے اور اگر اس نے معاف کردیا تو ہو کریم تو ہے ہی( نہج البلاغہ باب مکتوت)
بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی کچھ شخصیتوں نے کھانے پر مدعو کیا۔ امام علی علیہ السلام کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہیں خوف محسو س ہوا کہ کہیں یہ چیزیں انہیں اپنی طرف مائل کر کے اسلامی عدالت کی راہ سے نہ ہٹا دیں جس کی بنا پر وہ احکامات خدا سے دور ہو کر فیصلوں میں ظلم وستم روا رکھیں۔ علی علیہ السلام کو خط لکھا۔
ابن حنیف! مجھے اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے ایک نوجوان نے تمہیں کھانے پر مدعو کیا اور تم فوراً دوڑ پڑے۔ تمہارے لئے مختلف قسم کے انواع اقسام کے کھانے لائے گئے اور کھانوں سے پرسینیاں رکھی گئیں۔ میں نہ نہیں سمجھتا کہ تم ایسے لوگوں کی دعوت قبول کرو گے جو فقیروں سے دور ہوں اور امیر مدعو ہوں لہٰذا تم جو کھاتے ہو اس پر دھیان دو۔ جس چیز کے بارے میں تمہیں شبہ ہو اسے تھوک دو اور جس کی پاکیزگی کے بارے میں تمہیں یقین ہو اسے کھالو۔ جان لو کہ ہر ماموم کے لئے ایک ایسا امام لازم ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرے۔ اس کے علم کے نور سے روشنی حاصل کرے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارے امام نے اپنی دنیا میں دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر ہی قناعت کرلی ہے۔ جان لو کہ تم ایسا نہیں کر سکتےل یکن تمہیں تقویٰ، جدوجہد اور پاکدامنی اور استحکام کے ذریعہ میری مدد کرنا چاہئے۔
اسی طرح علی علیہ السلام نے اپنے (اردو شیر خرق کے )گورنر کے پاس دھمکی آمیز خط بھیجا:
مجھے تمہارے بارے میں ایک بات معلوم ہوئی ہے۔ اگر تم نے اسے انجام دیا ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے اپنے پروردگار کو ناراض کردیا۔ اپنے امام کی نافرمانی کی ہے۔ تم مسلمانوں کے اموال کو اپنے عرب اقربا میں بانٹتے ہو جن کو مسلمانوں کے نیزوں او رگھوڑوں نے اپنے قبضہ میں کیا تھا اور ان کے لئے ان کے خون بہے تھے۔( 14نہج البلاغہ مکتوب 45، 15نہج البلاغہ مکتوب 43)
آپ کی خالص اسلامی طرز حکومت نے کچھ ایسے لوگوں کے مفادات کو بلا واسطہ نقصان پہنچایا جو قرابت اور خاندانی فضیلتوں کی بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے درو خلافت میں ایک امتیازی حیثیت کے مالک تھے جس کے نتیجہ میں ذاتی مفادات کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے آپ کی ذات سے کینہ رکھ کر سازشوں کا جال بننا شروع کردیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جو شخص لوگوں کی قیادت کی اہم ذمہ داری قبول کرے سب سے پہلے ذات کی تعلیم شروع کرنی چاہئے اس سے پہلے کہ وہ دوسروں کو تعلیم دے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس سے پہلے زبان سے ادب سکھائے خود اپنی سیرت او راپنے کردار کو ادب سکھاتا ہے۔ وہ شخص اس سے کہیں زیادہ عزت واحترام کا حقدار ہوتا ہے جو دوسروں کو تعلیم دیتا ہے اور ادب سکھاتا ہے۔
علی علیہ السلام فرماتے ہیں پرہیز گار او رنیکو کار انسانوں کو چاہئے کہ گنہگاروں پر رحم کریں اور حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ان سے چشم پوشی کریں۔ اپنے بھائی کی غیبت نہ کریں اور وہ جس جس بلا میں گرفتار ہوا ہے اس پر اس کو سرزنش نہ کریں۔ یہ سوچ لینا چاہئے کہ خود وہ بھی ایک بڑے گناہ کا مرتکب ہوتے ہیں۔ اے بندہ خدا! بندوں کے گناہ پر ملامت کرنے میں جلدی نہ کر۔ شاید خدا نے ان کو بخش دیا ہو۔
ایک خطبہ میں آپ نے ارشاد فرمایا قبل اس کے کہ تمہاری آزمائش کی جائے تم خود اپنا جائزہ لو، قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے تم خود اپنا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا گلا گھونٹا جائے سانس لے لو، قبل اس کے کہ تم ناک کے بل کھینچے جاؤ خود ہی فرما نبرداری اختیار کرو اور جان لو کہ جس شخص کا دل و دماغ خود واعظ وناصح نہ ہو اس پر دوسرے کی پند و نصیحت اثر نہیں کرتی۔
سنہ 40ہجری میں 19رمضان المبارک کی تاریخ میں علی علیہ السلام کو مسجد کوفہ میں حالت سجدہ میں ایک خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم نے زہر سے ڈوبی ہوئی تلوار کا وار سرمبارک پر کیا۔ 21رمضان کو حضرت علی علیہ السلام نجف میں دفن ہوئے۔
کوفہ سے چار میل کے فاصلے پر نجف اشرف واقع ہے۔ یہاں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کی قبریں پہلے سے موجود تھیں۔ عام لوگ اس بات سے نا واقف ہیں کہ نجف کا نام نجف کیوں پڑا؟ روایات میں ملتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان سے مقابلہ کے لئے کشتی بنائی تھی اور ان کا ناخلف بیٹا پہاڑ پر چڑھ گیا تھا جو بحکم خدا ریزہ ریزہ ہو گیا اور وہاں ایک دریا جاری ہوگیا اس جگہ کو کوئے جف کہا جانے لگا جس کے معنی ہوتے ہیں خشک دریا، مگر عربی میں نجف کے معنی اونچا مقام ہوتا ہے۔

Tuesday 26 June 2012

گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا

گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا

ایک آدمی ابراہیم بن ادہم رحمه الله کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا ابواسحاق! میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتاہوں،مجھے کچھ نصیحت کیجئے جو میرے لیے تازیانہء اصلاح ہو ۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اگر تم پانچ خصلتوں کو قبول کرلو اور اس پرقادر ہوجاؤ تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔
آدمی نے کہا: بتائیے وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں ؟
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کے رزق میں سے مت کھاؤ۔
آدمی نے کہا: تو پھر میں کہاں سے کھاؤں جبکہ زمین کی ساری اشیاءاسی کی پیدا کردہ ہیں ۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کے رزق سے کھائے اور اسی کی نافرمانی کرے؟
آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….دوسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کی زمین میں مت رہو۔
آدمی نے کہا: یہ تو بڑامشکل معاملہ ہے ، پھررہوں گا کہاں ….؟
ابراہیم بن ادہم رحمه الله  نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے اور اسی کی نافرمانی کرے؟
آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….تیسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: ”جب تم اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرو جبکہ تم اسی کا رزق کھارہے ہو ،اسی کی زمین پر رہ رہے ہو تو ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں وہ تجھے نہ دیکھ رہاہو “۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تم اسی کا رزق کھاؤ ،اسی کی زمین پر رہوپھر اسی کی نافرمانی کرو‘ جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟
آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔
آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قبول نہیں کرے گا….
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ‘ تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ….؟
آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیںتو ان کے ہمراہ مت جانا
آدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: توپھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔
آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوں اوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزارا ۔
آدمی نے کہا: وہ تو سب کودیکھ رہا ہے ،اس سے ہم کہاں چھپ سکتے ہیں۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے پھر اسی کی نافرمانی کرے ‘جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟
آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔
آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قطعاًقبول نہ کرے گا۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ‘ تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ….؟
آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیںتو ان کے ہمراہ مت جانا
آدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: پھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔
آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوںاوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزار دی ۔

Sunday 24 June 2012

نماز تہجد کا فائدہ

نماز تہجد کا فائدہ
مایوسی یعنی ڈیپریشن(Depression)کے امراض کا علاج مغربی ڈاکٹروں نے ایک اور دریافت کیا ہے۔ یہ بات مجھے خیبر میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات نے بتائی۔ مغربی ممالک کے ڈاکٹروں نے دیکھا کہ جو مسلمان تہجد کے وقت جاگتے ہیںانہیں مایوسی کا مرض نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ تہجد کے وقت جاگنا، مایوسی کے مرض کا علاج ہے۔ علم نفسیات (Psychology)کے ماہرین نے مایوسی کے مریضوں پر یہ تجربہ کیا۔ انہوں نے مایوسی کے مریضوں کو تہجد کے وقت جگانا شروع کیا۔ یہ مریض جاگ کر کچھ پڑھ لیتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔ یہ معمول جب کئی مہینے تک مسلسل جاری رکھا گیا تو مایوسی کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوا اوروہ دواﺅں کے بغیر ٹھیک ہو گئے۔ چنانچہ اس مغربی ڈاکٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آدھی رات کے بعد جاگنا مایوسی کے مریضوں کا علاج ہے۔

عبرت والوں کے لیے تین نصیحتیں

سلف صالحین کی اپنے دوستوں کو تین نصیحتیں
1- جو آدمی آخرت کے کامو ں میں لگ جا تا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے کاموں کی ذمہ داری لے لیتے ہیں ۔
2- جو شخص اپنے باطن کو صحیح کر لے اللہ اس کے ظاہر کو صحیح فرما دیتے ہیں۔
3- جو اللہ تعالیٰ سے اپنا معاملہ صحیح کر لیتا ہے۔اللہ اس کے اور مخلو ق کے درمیا ن کے معاملات کو صحیح کر دیتے ہیں، دنیا ذلیل ہو کر اس کے قدمو ں میں گرتی ہے۔(معارف القرآن جلد 4 صفحہ 679)
1- مَن عَمِلَ لِاٰخِرَ تَہ کَفَاہُ اللّٰہُ اَمرَ دُنیاہ‘
2- وَ مَن اَصلَحَ سَرِیرَ تَہ اَصلَحَ اللّٰہُ عَلاَنیتہ
3- وَمَن اَصلَحَ فِیما بَینَہ وَ بَینَ اللّٰہِ اَصلَحَ اللّٰہُ مَا بَینَہ‘ وَ بَینَ النَّا سِ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تقویٰ
حضرت ایاس بن سلمہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ( حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بازار سے گزرے۔ ان کے ہا تھ میں کو ڑا بھی تھا، انہوں نے آہستہ سے وہ کوڑا مجھے مارا جو میر ے کپڑے کے کنارے کو لگ گیا اور فرمایا، راستہ سے ہٹ جاﺅ ۔ جب اگلا سال آیا تو آپ کی مجھ سے ملا قات ہوئی ، مجھ سے کہا اے سلمہ ! کیا تمہا را حج کا اراد ہ ہے؟ میں نے کہا جی ہا ں ، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور مجھے چھ سو درہم دئیے اور کہا انہیں اپنے سفر حج میں کام لے آنا اور یہ اس ہلکے سے کو ڑے کے بدلہ میں ہیں جو میں نے تم کو ما را تھا۔ میں نے کہا کہ اے امیر المومنین! مجھے تو وہ کوڑا یا د بھی نہیں رہا ۔فرما یا لیکن میں تو اسے نہیںبھو لا ۔ یعنی میں نے مار تو دیا لیکن سارا سال کھٹکتا رہا۔ (حیا ة الصحابہ جلد 2 صفحہ 125)

کچھ لوگ

کچھ لوگوں کو دوسروں کے معاملات میں اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے خود یہ لوگ اپنے گھر میں جو بھی کریں مگر دوسروں پر اپنی عقابی نظریں ضرور رکھتے ہیں حالانکہ ان کے انداذے بھی اکثر  و بیشتر غلط ہی ہوتے ہیں ۔

Friday 22 June 2012

اقبال ؒ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں

اقبال ؒ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں


اقبال ؒ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں

دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاﺅں
ملتا ہے کہاں خوشہءگندم کہ جلاﺅں
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاﺅں
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر اک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے کٹتی نہیں کوئی زنجیر
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی مُلّا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

مر مر کی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے، لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاﺅں کہاں سے
!وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار تھا ہم چھٹ گئے اس بارِ گراں سے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہِ سایہ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے کبھی جی، جی کے مرے ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی طاﺅس پہ آ کر
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو!
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
(امیر الاسلام ہاشمی)

کہا اُس نے محبت میں یہ غم کیوں ساتھ ملتے ہیں

کہا اُس نے محبت میں یہ غم کیوں ساتھ ملتے ہیں
کہا میں نے یہ کانٹے پھول بھی تو ساتھ پلتے ہیں


کہا اس نے کہ لمحے پیارکے کیوں کم سے ہوتے ہیں
کہا میں نے کہ کب خوشبو ہمیشہ ساتھ دیتی ہے



کہا اس نے غموں سے اس قدر کیوں پیار کرتے ہو
کہا میں نے یہی تو ہیں جو اپنا ساتھ دیتے ہیں

کہا اس نے بچھڑ جائیں اگر ہم تم تو اچھا ہے
کہا میں نے تم اپنی بھیگتی پلکیں ذرا دیکھو



کہا اس نے کہ کتنا چاہتے ہو تم مجھے ارشد
کہا میں نے سمندر کی کبھی گہرائی دیکھی ہے

اس نے کہا ، کیا چپ چپ رہنا اچھا لگتا ہے؟ : فاخرہ بتول

اس نے کہا ، کیا چپ چپ رہنا اچھا لگتا ہے؟ : فاخرہ بتول

اس نے کہا ، کیا چپ چپ رہنا اچھا لگتا ہے؟
میں نے کہا، ہاں کچھ ناں کہنا اچھا لگتا ہے
اس نے کہا، ہنستی آنکھوں میں جگنو ہوتے ہیں
میں نے کہا، اشکوں کا بہنا اچھا لگتا ہے
اس نے کہا، کیا ہجر کے تم مفہوم سے واقف ہو؟
میں نے کہا، یہ درد ہے ، سہنا اچھا لگتا ہے
اس نے کہا، کیوں تم چندا کو غور سے تکتے ہو؟
میں نے کہا، یہ غم کا ہے گہنا ، اچھا لگتا ہے

محبت مت سمجھ لینا : فاخرہ بتول

محبت مت سمجھ لینا : فاخرہ بتول

کسی کے ساتھ چلنے اور دُکھ سُکھ کی شرکت کو
محبت مت سمجھ لینا
محبت کا لبادہ پانیوں کے رنگ جیسا ہے
محبت ساتھ پردوں میں نہاں ہو کر عیاں ہے،
یہ حقیقت ہے
اور اس کی خوشبوؤں کو ہم دھنک میں ڈھونڈ سکتے ہیں
مگر یہ بھی حقیقت ہے
کہ اس کو جس نے پایا ہے
وہ اپنا آپ کھو بیٹھا
یہ مل کر بھی نہیں ملتی
کسی کے ساتھ چلنے اور دُکھ سُکھ کی شرکت کو
محبت مت سمجھ لینا
کہ کس کو چھُو لیا جائے
خُدا وہ ہو نہیں سکتا
محبت ایسا منتر ہے
فنا جو ہو نہیں سکتا

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں : افتخار عارف

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں : افتخار عارف

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مد د کے لیئے پکارا نہیں
جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں
ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

ہم لوگ نہ تھے ایسے : امجد اسلام امجد

ہم لوگ نہ تھے ایسے :

ہم لوگ نہ تھے ایسے
ہیں جیسے نظر آتے
اے وقت گواہی دے
ہم لوگ نہ تھے ایسے
یہ شہر نہ تھا ایسا
یہ روگ نہ تھے ایسے
دیوار نہ تھے رستے
زندان نہ تھی بستی
آزار نہ تھے رشتے
خلجان نہ تھی ہستی
یوں موت نہ تھی سستی
یہ آج جو صورت ہے
حالات نہ تھے ایسے
یوں غیر نہ تھے موسم
دن رات نہ تھے ایسے
تفریق نہ تھی ایسی
سنجوگ نہ تھے ایسے
اے وقت گواہی دے
ہم لوگ نہ تھے ایسے

بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اِک شخص : عبید اللہ علیم

بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اِک شخص : عبید اللہ علیم

بنا گلاب تو کانٹے چُبھا گیا اِک شخص
ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص
تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے
فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص
میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اِک شخص
پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص
محبّتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اِک شخص
محبّتوں نے کسے کی بھُلا رکھا تھا اُسے
ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اِک شخص
کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا
اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اِک شخص

انا کی بات جانے دو : فاخرہ بتول

 انا کی بات جانے دو : فاخرہ بتول

 

اَنا کی بات جانے دو
اَنا تو اس گھڑی ہم نے گنوا دی تھی
تمھیں جس پل کہا اپنا
ہتھیلی پر تمھارا نام لکھا تھا، حنا سے جس گھڑی ہم نے
تمھیں پلکوں پہ حیرت کی جگہ ہم نے سجایا تھا
ہمیں ہم سے ہی جب تم نے چرایا تھا
تمھیں جب دل نے دھڑکن میں بسایا تھا،
تمھیں اپنا بنایا تھا
” ہمیں تم سے محبت ہے“ تمھیں سرگوشیوں میں جس گھڑی ہم نے بتایا تھا
اَنا کی بات جانے دو
اَنا تو اس گھڑی ہم نے گنوا دی تھی
اَنا کی بات جانے دو

Wednesday 20 June 2012

سلام سے گھریلو مشکلات حل

ہر قوم کی ملا قات کے وقت کچھ کلمات کہنے کی عادات ہو تی ہیں ۔کوئی گڈ ما رننگ کہتا ہے تو کوئی نمستے ، کوئی گڈ ایوننگ بولتا ہے ، توکوئی ہا ئے ، کوئی سر جھکاتا تو کوئی ہا تھ جو ڑتا ہے ۔
مگر مسلمہ امہ کے ہا ں ملا قات کے وقت بہت ہی خوبصورت اور دلکش انداز رائج ہے جو کہ رب ذوالجلا ل کا عطا کر دہ بہترین تحفہ ہے ۔ ”السلام علیکم ورحمة اللّٰہ “ شہکا ر ِ کائنات، حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے۔ (1 ) ہرمسلمان کو سلام کر نا چاہیے خوا ہ اسے پہچانتا ہو یا نہ ہو ۔ (بخاری )(2 )زبان سے السلام علیکم کہے ہاتھ سے ، سر سے یا انگلی کے اشارے سے سلام کرنا یا اس کا جوا ب دینا سنت کے خلا ف ہے۔ اگر دوری ہو تو زبان اور ہا تھ دونو ں سے سلام کرے ۔ (ترمذی )(3 ) کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو تو سلام کے بعد مصافحہ کرنا مسنون ہے ۔عورت عور ت سے مصافحہ کر سکتی ہے ۔ (مشکوة ) (4 )اللہ تعالیٰ کے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔ جہا ں سے مسلمانو ں کی ابتداءہوئی وہی سے سلام کی بھی ابتدا ءہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا کہ جا ﺅ فرشتو ں کو سلام کر و اور دیکھو کہ وہ کیا جوا ب دیتے ہیں ۔ جو جواب وہ آپ کو دیں وہ آپ کا اور آپ کی اولا د کا ملا قاتی ہدیہ ہو گا ۔
سلا م جہا ں ملا قاتی ہدیہ ہے وہاں دلو ں کو قریب کرنے کا خوبصورت ذریعہ ہے ۔ محبتیں اور نیکیا ں سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اللہ جل جلا لہ کاقرب اور سر دار انبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مزے بھی سلا م دلا تا ہے ۔ یہ وہ خوبصورت کلمات ہیں جو کہ رب جلیل بھی جنتیو ں سے فرمائیں گے ۔ دراصل ”سلام “ تو اللہ کریم کا صفاتی نام ہے ۔ جس کے معنی (سلا متی والا ) ” وہ ذات جس سے حفاظت و عا فیت کی امید رکھی جا ئے “ ”السلام جل جلا لہ‘ ‘ وہ ذات جو تمام عیبو ں سے اور تما م نقا ئص سے پا ک ہو اور اپنی ذات و صفات اور افعال میں کامل ہو ۔ معلوم ہو اکہ امن و سلامتی صرف اسی ” السلام جل جلا لہ “ کی طر ف سے ہے ورنہ ہم کیا اور ہما ری حفاظت کا سامان کیا۔ جب وہ ذات اپنی سلامتی کو اٹھا لے تو ہما رے سارے انتظاما ت دھرے کے دھرے رہ جا تے ہیں ۔ مثلا ً ہما رے یہ پا لتو جا نور جو دل و جا ن سے ہما ری خدمت کر تے ہیں ذراسی دیر میں ہمیں دوسرے جہا ن بھی پہنچا سکتے ہیں ۔ شہنشاہِ ایران جمشید کے بارے آتا ہے کہ ایک دفعہ بڑا ہی خوبصورت گھوڑا کہیں سے آکر اس کے محل کے دروازے پر کھڑا ہوگیا ۔ با دشا ہ نے جب اُس حسین گھوڑے کو دیکھا تو کہا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ہی بھیجا ہے ۔ لگا م لگا ﺅ اور زین کسو کہ میں اس پر سواری کا لطف اٹھا ﺅ ں ۔ خادموں نے بڑا زور لگا یا مگر کوئی بھی اسے لگا م نہ لگاسکا ۔با دشا ہ کہنے لگا کہ یہ مجھ سے ہی لگا م لگوائے گا ۔ چنا نچہ با دشاہ نے اس پر ز ین کسی ۔ گھوڑا آرام سے کھڑا رہا مگر جب وہ اس کی دم میں ز ین کی ڈوری لگانے لگا تو ا س نے ایسی لا ت ما ری کہ با د شاہ وہیں دم توڑ گیا ۔ یہی با ت ہے کہ اگر سلا متی دینے والا اپنی سلامتی اٹھا لے تو دوسرے لمحے ہلا کت و تبا ہی ہما را مقدر بن سکتی ہے ۔ بات تو السلام علیکم ور حمة اللہ و بر کا تہ‘ پر ہو رہی تھی ۔ سلام کہنے کی فضیلت حبیب کبریا ا نے کتنے خوبصورت انداز میں بیان فرمائی ہے ۔ ارشا د ہے۔ ( 1) سلام کو خوب پھیلا ﺅ تا کہ تم بلند ہو جا ﺅ ۔(2 )سلام میں پہل کر نے والا تکبر سے بری ہے (3 )جب تم گھر میں داخل ہو تو اس گھر والو ں کو سلام کرو اور جب گھر سے جانے لگو تو گھر والو ں سے سلام کے ساتھ رخصت ہو ۔ (4)جو مسلمان روزانہ بیس مسلمانوں کو سلام کرے اللہ تعالیٰ جنت اس کے لیے واجب کر دیتے ہیں ۔ (5 )تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک مو من نہ ہو جاﺅ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دو ںجس کے کرنے سے تمہا رے درمیا ن محبت پیدا ہو جائے وہ یہ ہے کہ سلام کو آپس میں خو ب پھیلا ﺅ ۔
سلام کا پھیلا نا اسلام کے بڑے بڑے شعا ئر میں سے ہے ۔ سلا م کرنا مسلما نو ں کے لیے بہت بڑی سنت ہے ۔ فرمانِ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اے لو گو ! تم لو گو ں کو کھا نا کھلاﺅ ، رشتہ دارو ں سے صلہ رحمی کرو۔ سلام کو عام کر و ،را ت کے وقت نماز پڑھو، جب لو گ سو رہے ہو ں تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاﺅ گے۔ بھائیو سلامتی اور عا فیت صر ف اور صرف اللہ ہی سے مانگنی چاہیے ۔ مال کی سلامتی کے لیے بہنوں اور بھائیو ں کا حق نہ دبا یا جا ئے ۔ مال ہو تے ہوئے اپنے اوپر قرض نہ رکھا جائے ۔ لوگو ں کو دارالسلام کی طر ف دعوت دی جائے ۔ سلام کی کثر ت کی جائے ہم سے سلام کر نے میں کوئی سبقت نہ لے جائے ، کیونکہ سناہے کہ سلام میں پہل کرنے والے کو نو ے (90 )نیکیا ں اور جو اب دینے والے کو دس (10 )نیکیا ں ملتی ہیں ۔ روز مرہ زندگی میں ہر ملاقاتی سے بات کرنے سے پہلے السلام علیکم ورحمة اللّٰہ کہنے کا اہتمام کیا جائے ۔ آخر میں روزی میں بر کت کا بہترین و مجرب نسخہ بھی ذہن نشین کرلیں ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میںحاضر ہو کر اپنی غریبی و محتا جی کی شکا یت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فرمایا : جب تم گھر میں داخل ہوا کر وتو السلام علیکم کہہ کر داخل ہوا کر و خوا ہ گھر میں کوئی ہو یا نہ ہو ۔ پھر مجھ پر سلا م عر ض کر و۔” السلا م علیکم ایھا النبی ورحمت اللہ و بر کا تہ ‘ “ اور ایک با ر سورة اخلا ص پو ری پڑھ لیا کرو ۔ ۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا پھر مالکِ کائنا ت نے اس کو اتنا مالا ما ل کر دیا کہ اس نے اپنے ہمسا یو ں اور رشتہ داروں کی بھی خدمت کی ۔ (السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کا تہ )

بیوی ....! آپ سے کیا چاہتی ہے؟

گھر کو گھر بنانا اور آپ کو خو ش ومطمئن رکھنا محض آپ کی بیوی ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے۔ جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ بیوی آپ کی مر ضی اور خوا ہش کے مطا بق کام کرے ۔ اسی طر ح ایک شو ہر اور خاندان کا سربراہ ہونے کے نا طے آپ پر بھی ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ آپ اپنی بیوی کی جا ئز خوا ہشات کا احترام کریں اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کی پسند و نا پسند معلوم کریں ۔ یہ جاننے کی کو شش کریں کہ آپ کی بیوی آپ سے کیا چاہتی ہے ؟ اور کیا نہیں چا ہتی ؟
ماہرین نے اس ضمن میں بتا یا ہے کہ میا ں اور بیوی کے درمیان جسمانی اور معاشر تی فرق کی وجہ سے دونو ں کے درمیان غلط فہمیا ں پیدا ہو جا تی ہیں ۔ جس کے نتیجے میں گھریلو زندگی متا ثر ہوتی ہے ۔ ان اختلا فات کی وجہ جان کر اور ان کا مداوا کرکے میا ں بیوی ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں اور اپنی گھریلو زندگی کو خوش گوار بنا سکتے ہیں۔ ذیل میں ہم چیدہ چیدہ نکا ت بیان کر رہے ہیں ۔ جن سے اندا زہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کی بیوی آپ سے کیا چاہتی ہے ؟ ان نکا ت کو غور سے پڑھ کر اور ان کے مطابق عمل کر کے آپ بیوی کو خوش اور گھر کے ما حول کو خوش گوار بنا سکتے ہیں ۔

پر کشش رہنے کی خو اہش
ایک بیوی کے لیے یہ با ت بہت اہم ہو تی ہے کہ اس کے شوہر کی نظرمیں وہ خوبصورت اور پرکشش ہو ۔ خوا ہ وہ کتنی ہی موٹی ، بھدی اور سانولی کیو ں نہ ہو ۔ آپ نے بھی غور کیا ہو گا کہ بیویا ں آئے دن اپنے شوہروں سے سوال کر تی ہیں ” میں کیسی لگ رہی ہو ں“ اس سوال کے پیچھے اصل میں ان کی یہ نفسیات کام کر رہی ہو تی ہیں کہ ان کے شوہر اب بھی ان میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں ۔ اس قسم کے سوالو ں کے مثبت اور پُر محبت جواب دیجئے ۔ کیا میں آج بھی اتنی ہی پیا ری ہو ں کہ جب دلہن بنی تھی؟ کیا میں آج بھی جوانی کی طر ح پر کشش ہوں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس قسم کے سوالات ہیں ۔ جن کا کوئی واضح اور درست جوا ب گو بہت مشکل ہوتا ہے۔ تا ہم بیوی کا یہ سوالات کرنے کا اصل مقصد محض یہ اندا زہ لگانا ہوتاہے کہ کیا اب بھی وہ مجھ سے اتنا ہی پیار کر تا ہے جتنا کہ وہ ابتدائی ایام میں کر تا تھا؟ اگر آپ بیوی کو اس مو قع پر خو ش و مطمئن کرنے میں کامیا ب ہو جا تے ہیں اور اسے اپنی محبت کا یقین دلا تے ہیں تو وہ آپ کے لیے ہر قسم کی قر بانی دینے کے لیے پہلے سے زیادہ مستعد رہے گی ۔

جسمانی سے زیا دہ جذبا تی لگا ﺅ
مر دو ں اور عورتو ں میں ایک بڑا نا زک اور اہم فر ق یہ ہو تاہے کہ مر د اپنی بیو ی سے جسمانی و جنسی لگاﺅ کا زیا دہ خوا ہش مند ہو تا ہے ۔ جب کہ عورت کو اپنے مر د سے جذبا تی اور قلبی لگا ﺅ کی ضرورت ہو تی ہے ۔ یہ نا زک فرق میا ں اور بیوی کے درمیا ن نا چا قی کا باعث بھی بن جا تاہے ۔ جو مر د اپنی بیویو ںسے کم کم بو لتے ہیں ۔ ان کی با تو ں پر تو جہ نہیں دیتے ، انہیں اس با ت پر خاص توجہ دینی چاہیے کہ ان کی بیویا ں ان کی آواز سننے کے لیے بے تا ب رہتی ہیں ۔ حتیٰ کہ اگر دفتر سے ان کے شو ہر کا فون آجائے اور انہیں ایک جملہ ہی سننے کو مل جائے تو گھنٹو ں شوہر کی آوا ز ان کے کا نو ں میں رس گھولتی رہتی ہے ۔ شوہروں کو چاہیے کہ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آتے وقت چند جملے دل لگی اور چاہت کے اندا ز میں ضرور کریں تاکہ وہ آپ کی عدم مو جو دگی میں آپ کی با تو ں کو سو چ کر خو ش و خرم رہے ۔

گھریلو اشیا ءکے تحفے
تحفہ یقینا محبت بڑھا تا ہے اور الفت پیدا کر تا ہے اور میا ں بیوی کے درمیا ن تعلق میں تو اس کی اہمیت اور بڑھ جا تی ہے لیکن تحفے کا انتخا ب اصل چیز ہے ۔ مر د اپنی بیویو ں کو کوئی گھریلو شے تحفے میں دے تو اس سے بیو ی
کو خاص دلچسپی نہیں ہو تی ۔ اس قسم کے تحفو ں میں بیوی سے انس اور پیا ر و محبت کا عکس نظر نہیں آتا ۔ جب آپ اس قسم کا کوئی تحفہ اپنی بیوی کو دیتے ہیں تو بیوی پر یہ ظاہر ہو تاہے کہ آپ کو اپنی بیوی سے زیا دہ اپنی پسند اور خوا ہش کی پرا وہ ہے ۔ بیوی اپنے شو ہر سے ایسا تحفہ چاہتی ہے جس سے یہ اظہا ر ہو کہ شوہر نے بیوی کی خو اہش کا احترام کیا ہے ۔ مثال کے طور پر اپنی بیو ی کو اس کی پسند کی کوئی کتا ب ، رسالہ یا اس کی پسند کے کپڑے اور جیو لری کا تحفہ دینا بیوی کے لیے زیا دہ خوشی کا با عث ہو گا ۔ اس لیے شوہروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کی پسند پر نظر رکھیں اور پھر جان لینے کے بعد جب بھی مو قع ملے ، چاہت سے پیش کر دیں یقینا آپ کی بیوی جھو م اٹھے گی ۔

اولین ترجیح کی تمنا
یہ با ت ذہن میں رکھئیے کہ مر د اور عورت کے حسد کی وجہ الگ الگ ہو تی ہے ۔ مثلا ًجنسی طور پر زیا دہ فعال بیوی سے شوہر بد گمان ہو سکتا ہے ۔ جب کہ بیوی اس وقت کڑھتی ہے جب اس کا شوہر ا س سے دو رہو تا ہے ۔ خواہ دوستوں میں بیٹھا ہو یا اخبا ر پڑھ رہا ہو ۔ ایک بیوی یہ محسو س کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے شو ہر کی پہلی ترجیح ہے ۔ آپ ایک شو ہر ہیں اور یقینا آپ کی بیوی آپ کی اولین ترجیح ہے ۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ آپ یہ کہیں کہ میری بیوی یہ جا نتی ہے کہ وہ میری اولین ترجیح ہے ۔ لیکن جب آپ گھر سے با ہر ہو تے ہیں تو آپ کی بیوی کئی قسم کے وسوسو ں کا شکا ر ہو کر بعض اوقات ا س شک میں مبتلا ہو سکتی ہے کہ شا ئد وہ آپ کی اولین پسند نہ ہو۔ یہی معاملہ اس وقت بھی پیش آسکتا ہے جب آپ گھر پرہو تے ہو ئے بھی بیوی پر بھر پو ر تو جہ نہ دے رہے ہو ں ۔ وہ ایسے میں خیا ل کر تی ہے کہ آپ اسے مستر د کر چکے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ جب آپ گھر پر ہوں تو اپنی بیوی پر بھر پو ر توجہ دیجئے ۔ اس کے کا مو ں کی تعریف کیجئے اور زیا دہ سے زیادہ سے وقت اس کے ساتھ گزارئیے تاکہ آپ کی بیوی کسی بھی قسم کے وسوسے یا شکوک و شبہا ت میں مبتلا ہو کر گھریلو امن و سکون اور سلا متی کو تہہ و با لا نہ کردے۔ کا میا ب زندگی گزارنے کے لیے یہ ایک اہم اصول اور بنیا دی نقطہ ہے ۔

بیوی کا ہا تھ بٹائیں
آپ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیو ں نہ ہو ں ۔ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے بیوی کے ساتھ کا م کا ج میں شرکت مفید ہے ۔ وہ چا ہتی ہے کہ چھٹی کے دن اگر وہ سا لن بنا رہی ہے تو آپ سلا د کا ٹ لیں وہ بر تنو ں پر صابن لگا کر پانی سے دھو رہی ہے تو آپ یہ بر تن اٹھا کر الما ری میں رکھتے جا ئیں ۔ بیوی کو اس وقت بہت خو شی ہو تی ہے کہ جب وہ اپنے شوہر کو اپنے ساتھ گھریلو کا م کاج کرتے دیکھتی ہے ۔ عام طور پر شوہر یہ سمجھتے ہیں کہ امور خانہ داری محض بیویو ں کی ذمہ دا ری ہے اور وہ گھر میں کھانا کھا نے ، اخبا ر پڑھنے اور صرف سونے آتے ہیں۔ سو چ کا یہ اندا ز بالکل غلط ہے ۔ گھر کی زندگی ایک جما عت اور ٹیم کی طر ح ہے۔ چنانچہ یہ گھریلو کام جس طر ح دعوت کی ذمہ داری ہے ، اسی طرح شو ہر کی بھی ہیں ۔ یا درکھئیے ! آپ کی بیوی آپ کو محض اپنا شریک حیا ت ہی تصور نہیں کر تی بلکہ وہ آپ کو اپنا شریک کا ر بھی بنا نا چاہتی ہے۔ روز گا رکے لیے گھر سے جا نے سے پہلے اور آنے کے بعد ایک کونے میں پڑے رہنا یعنی بے اعتنا ئی والا رویہ ظاہر کرنا اور بیوی کو اپنے ذاتی کا موں کی فرمائشیں کر کے گھر یلو کام کا ج میں بے وقت مخل ہو تے رہنا ، بیوی کو ہر گز پسند نہیں ہوتا۔
یا د رکھئیے ! گھر میں ہونے والے میا ں بیوی کے جھگڑو ں میں جہا ں ایک وجہ رقم ہو تی ہے ۔ وہا ں دوسرا اہم سبب گھریلو کام کا ج بھی ہیں ۔ جو مر د گھریلو کا م کا ج اور بچو ں کی دیکھ بھال میں اپنی بیویو ں کا ہا تھ بٹاتے ہیں ، وہ پر سکون خانگی زندگی گزارتے اور بیویو ں سے بہتر تعلق رکھتے ہیں ۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیوں فرمائے؟ (تحریر: ڈاکٹر نور احمد نور، فزیشن ملتان)

  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیوں فرمائے؟ (تحریر: ڈاکٹر نور احمد نور، فزیشن ملتان)  
کا فی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیا قت میڈیکل کا لج جامشورہ میں سروس کررہا تھا تو وہا ں لڑکو ں نے سیر ت نبی ا کا نفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ما ہر تھا ) کے ہمرا ہ اس مجلس میں شرکت کی۔ اس مجلس میں ایک اسلامیات کے لیکچرار نے حضور اقدس ا کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شا دی کیوں کی او ر اس سے امت کو کیا فائدہ ہو ا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سرا ہا ۔ کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کا ر آرہے تھے توڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو نے عجیب بات کی ۔ اس نے کہا کہ آج رات میں دو با رہ مسلمان ہو ا ہو ں ۔ میں نے تفصیل پو چھی تو اس نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گیا تو کرا چی سے انگلستا ن کا سفر کا فی لمبا تھا ، ہوا ئی جہا ز میں ایک ائیر ہو سٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پو چھا کہ تمہا را مذہب کیا ہے ؟ میں نے بتا یا، اسلام ۔ ہما ر ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پو چھا ، میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتا یا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلو م ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیا رہ شا دیا ں کی تھیں؟میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ با ت حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دو تین اور باتیں کیں ، جس کے سننے کے بعدمیرے دل میں (نعو ذ بااللہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نفرت پیدا ہوئی ۔ جب میں لندن کے ہو ائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتو ار کو میں گرجو ں میں جا تا اور وہا ں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے ۔ جب میں آٹھ سال بعد وا پس پاکستا ن آیاتو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیا قت میڈیکل کالج میں کا م شر و ع کیا ۔ یہا ں بھی میری وہی عا دت رہی ۔ آج رات اس لیکچرا ر کا بیا ن سن کر میرا دل صاف ہو گیا اورمیں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے ۔
غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر ڈاکٹر عنا یت اللہ یہ بیا ن نہ سنتا تو پتہ نہیں اس کا کیا بنتا ۔ اس کی و جہ ہم مسلمانو ں کی کم علمی ہے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کو شش کرتے ہیں ۔ کئی میٹنگو ں میںجب کوئی ایسی با ت کر تا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے ، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والو ں کے حوصلے بلند ہو جا تے ہیں ۔ اس لیے بہت اہم ہے کہ ہم اس مو ضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر صحیح با ت لو گو ں کو بتائیں ۔ ایک دفعہ بہا ولپور سے ملتان بذریعہ بس میںسفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لو گو ں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شا دیو ں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا ۔ میںنے اس کے قریب جانے کی کو شش کی اور بات شروع کی تو وہ چپ ہو گیا اور با قی لو گ بھی ادھر ادھر ہو گئے۔ لو گو ں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و نامو س کی خاطر جانیں قربان کی ہیں کیا ہما رے پا س اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یا د کر لیں اور موقع پر لو گو ں کو بتائیں ۔ اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہا ں ایک جما عت کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستا ن میں ڈاکٹر صاحب کے کا فی دو ست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے وہ ان کو اس موضوع پر صحیح اطلا ع کرتے رہتے ہیں ۔ انہو ں نے چیدہ چیدہ نکا ت بتائے ،جو میں لکھ کر پیش کر رہا ہو ں۔
اتوا ر کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ” گر جا گھر “ چلے جا تے ہیں ، وہا ں اپنا تعارف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کر اتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شا دیو ں پر اعتراض کر تی ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
(1) میرے پیا رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم شبا ب میں (25 سال کی عمر میں )ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے شا دی کی ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں آپ نے دوسری شا دی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خوا ہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کر تا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفا ت کے بعد مختلف وجو ہا ت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کئے ۔ پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ یہا ں بہت سے نو جوان بیٹھے ہیں۔ آ پ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شا دی کر ے گا....؟سب نے No, No کہا ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیا رہ شا دیا ں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں سوائے ایک کے با قی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیمو ں کا کوئی سہا را نہ رہا ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکا ح کیے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شا دیا ں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرا نے آبا د ہوگئے (2)ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داما د بن جاتاا س کے خلا ف جنگ کر نا اپنی عزت کے خلا ف سمجھتے ۔ جنا ب ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھا ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکا ح ہو اتو یہ دشمنی کم ہو گئی ۔ ہو ایہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ شروع میں مسلما ن ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجر ت کر گئیں ، وہا ں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے اس سے علیحدگی اختیا ر کی اور بہت مشکلا ت سے گھر پہنچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور با دشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا (3) حضرت جو یر یہ رضی اللہ عنہ کا وا لد قبیلہ معطلق کا سر دار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہا د کیا ، ان کا سر دار ما را گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کر کے سر دا رکی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکا ح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔(4 ) خیبر کی لڑائی میں یہو دی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحا بی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ا ن کا نکا ح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرادیا ۔ اسی طر ح میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکا ح کی وجہ سے نجد کے علا قہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شا دیو ں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔ (5 )حضر زینب بنت حجش سے نکا ح مبتنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنی کہلائے تھے ، ان کا نکاح حضرت زینب بنت حجش سے ہوا ۔ منا سبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلا ق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہر گز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا ۔
اپنا کلا م جا ری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پا ک اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت پا ک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفو ظ کرنے کے لیے مر دو ں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی اللہ عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتو ںمیں اس کا م کے لیے ایک جما عت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کا م کرنا مشکل تھا ۔ اس کا م کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکا ح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کو ارشا د فر مایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو را ت کے اندھیرے میں دیکھیں ۔
حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہ جو بہت ذہین ، زیرک اور فہیم تھیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پر دہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہو تاہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے اس کا علم ہوتا ۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔
ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کے گھر عورتو ں کی دینی درسگا ہیں تھیں کیو نکہ یہ تعلیم قیا مت تک کے لیے تھی اور سار ی دنیا کے لیے دنیا کے لیے تھی اور ذرائع ابلا غ محدود تھے اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کا م کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا۔
آخرمیں ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ یہ مذکو رہ با لا بیا ن میں گر جو ں میں لوگوں کو بتا تا ہو ں اور وہ سنتے ہیں ۔ با قی ہدا یت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکا ت کو یا د کر لیں اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفا ع کر یں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ (آمین )

المتکبر

المتکبر
﴾بڑائی کر نے والا﴿
(عدد: 662)
متکبر وہ ذات ہے جو اپنی ذات کے مقابلہ میں سب کو حقیر سمجھے ۔ عظمت اور بڑائی فقط اپنے نفس کے لیے جا ئز سمجھے۔ دوسروں کو اس نظر سے دیکھے جس طرح بادشاہ اپنے غلاموں کو دیکھا کرتے ہیں اگر یہ حالات سچے طور پر پائے جائیں تو تکبر ایسی ذات کے شایا ن شان ہو گا اور اگر یہ اوصاف نہ پائے جا ئیں اور تکبر پایا جا ئے تو یہ تکبر باطل اور مذموم ہو گا۔(امام غزالیؒ)حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے منبر پرفرمایا اے لو گو! متواضع بنو کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو سرفراز فرما ئے گا۔ وہ اپنے خیال میں ذلیل ہو لیکن لوگوں کی نظروں میں بہت بڑا ہو گا۔ اور جس نے تکبر کیا اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دے گا۔ وہ لو گو ں کی نظر وں میں ذلیل اور اپنے خیال میں بڑا ہو گا یہاں تک کہ وہ لو گو ں کے ہا ں کُتے اور خنزیر سے بھی زیادہ ذلیل ہو گا۔ (رواہ البیہقی)ایک حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا:۔ ” بڑائی میرا تہبند اور عظمت میری چادر ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی عظمت ، اس کا جلال اس کا رتبہ اور اس کی صحےح معنی میں قدر اورعزت کوپہچا ن لے گا وہ خو د بخود عاجزی و انکساری اختیار کرے گا۔ “انسان کو چاہیے کہ اپنی اصل کو نہ بھولے اور عاجزی وانکساری اختیار کرے کیوں کہ تکبر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتا ہے۔

اورادووظائف
فرزند صالح کا حصول
جو شخص بیو ی کے پاس جاتے وقت اس اسم پاک ”یا متکبر “ کی دس بار تلا وت کر ے گا اللہ تعالیٰ اسے نیک فرزند عطا فرمائے گا۔

حصول شرف و عزت
جو شخص اس اسم پاک کی کثرت کر ے گا انشاءاللہ اسے عزت و جاہ حاصل ہو گی۔ اس کا ذاکر خلقت سے الگ یکسوئی کی تلا ش میں ہو گا دنیاوی ہنگاموں سے متنفر ہو گا۔ دینی مجا لس میں فرحت محسوس کرے گا۔

سر کشو ں کی ذلت
شیخ مغر بی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے یہ ذکر صالحین اور عابدین کے اذکار سے ہے اس اسم پاک کے ذاکر میں تہذیب و شائستگی پیدا ہو تی ہے اور عوام و خواص کی نظروں میں صاحب عزت ہوتا ہے۔ اور اس کے سامنے سر کش ذلیل و سر نگوں ہوتے ہیں۔

بدخوابی سے حفاظت
جس شخص کو بد خوابی یا سوتے میں ڈر لگتا ہو سونے سے پہلے اکیس دفعہ اس اسم مبارک ” یا متکبر “کو پڑھ کر خا مو ش ہو کر سو جا ئے انشاءاللہ کبھی بد خوابی نہ ہو گی۔

ہر برائی سے تحفظ
اگر کو ئی شخص اس اسم پا ک کو499 دفعہ یا662 دفعہ جمعہ کے روز مکا ن کی دیوار پر لکھے تو اللہ تعالیٰ اس مکان یا شہر یا باغ کو ہربرائی سے محفوظ رکھے ۔ اور جو اس شر ف مریخ میں لکھ کر پاس رکھے گا سر کش اس کے سا منے ذلیل ہو گا۔

کلونجی اور دورِ حاضر کی بیماریاں

معیادی بخار میں کلونجی کے کرشمات
رات کو ایک کپ تیز گرم پانی میں بھگو دیں۔ صبح سردائی کی طرح گھوٹ کر مریض کو پلا دیں۔ واضح رہے کہ اگر موسم سرما ہو تو یہ پانی نیم گرم کر لیں اور اگر موسم گرما ہو تو ویسے ہی پلا دیں۔ اس طرح کچھ دن استعمال کرنے سے مریض تندرست ہو جائے گا اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ مریض پھر کبھی اس مرض میں انشاءاللہ تعالیٰ مبتلا نہیں ہوگا۔
ایک صاحب ایسی حالت میں تشریف لائے کہ دن ڈھلتے ہی ان کو بخار اور لرزے کی کیفیت شروع ہو جاتی۔ تمام رات بخار میں تڑپتے رہتے صبح ہوتے ہی کچھ افاقہ ہو جاتا۔
دنیا کے کام کاج میں مشغول ہو جاتے لیکن دن ڈھلتے ہی وہی سابقہ تکلیف۔ جب انہیں یہ نسخہ استعمال کرایا گیا تو وہ بفضل تعالیٰ تندرست ہوگئے۔
ایک صاحب مرض کی حالت میں لائے گئے۔ ان کی تکلیف یہ بھی تھی کہ وہ دن میں ایک بار یا دو بار چلتے چلتے یا بیٹھے بیٹھے گر جاتے تھے اور دورہ پڑ جاتا تھا۔ اب تک تمام معالین نے اس مریض کو مرگی کی تکلیف بتائی۔ عاجز کے پاس جب علاج کے لئے لائے گئے تو بندہ نے یہی نسخہ مسلسل استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ دن میں تین بار استعمال کرایا گیا یعنی ہر دفعہ اجوائن اور کلونجی کی مذکورہ مقدار کو گھول کر موسم کے مطابق ٹھنڈا یا گرم کر کے پلایا گیا۔
بندہ کی تشخیص یہ تھی کہ مریض دراصل پرانے معیادی بخار کا شکار ہے۔ جب تک اندر سے یہ بخار نہیں نکلے گا اس وقت تک یہ دورے ختم نہیں ہو سکتے۔ یعنی یہی دوا مستقل استعمال ہوئی۔ تو واقعی مریض تندرست ہوگیا۔

جوڑوں کا درد اور کلونجی
ایک نیم حکیم قسم کے آدمی عاجز کے پاس ملاقات کیلئے تشریل لائے۔ تعارف کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں نے آپ کی کئی کتابیں پڑھیں اور جس طرح آپ نے اپنی کتابوں میں کھلے دل سے عامتہ المسلمین کیلئے اپنے تجربات و مشاہدات کو بیان کیا ہے ۔ میں بھی آپ کو ایک ایسا نسخہ دینا چاہتا ہوں۔ جو اتنا مفید اور موثر رہے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ موصوف کہنے لگے کہ یہ نسخہ دراصل میں نے جن جن مریضوں کو استعمال کرایا ہے وہ تمام مریض بالکل تندرست ہو گئے ہیں۔ پھر کہنے لگے یہ نسخہ دراصل مجھے میاں چنوں کے قریب ایک دیہات کی ایک بوڑھی عورت سے ملا تھا

بڑی بوڑھیوں کا اکسیری نسخہ
میں نے ایک مریض کا علاج کیا تھا۔ علاج کے بعد مریض تندرست ہو گیاتو وہ بوڑھی ”جو کہ ایک دائیہ تھی۔“ مجھے یہ نسخہ بڑی تاکید سے دیا اور کہا کہ اس کو استعمال کرنے سے قبل سوا پانچ روپے کسی فقیر کو ضرور دے دینا اور کسی سے اس نسخہ کو چھپانا نہیں۔ موصوف حکیم صاحب کہنے لگے میں نے واقعی جس مریض کو یہ نسخہ استعمال کرایا اسے انتہائی مفید پایا۔ لیجئے قارئین وہ نسخہ آپ کی نظر کیا جاتا ہے۔ جو بلا کم و کاست ایک اکسیر لا جواب ہے۔
ھوالشافی: آک کی جڑ کا چھلکا خشک شدہ ایک پائو کلونجی ایک پائو، اجوائن ایک پائو، ان تمام ادوایات کو بالکل باریک پیس کر سفوف تیار کریں۔
استعمال : مقدار خوراک ایک چمچ سے آدھا چمچ دن میں تین یا چار مرتبہ بار چائے ، دودھ یا تازہ پانی کے ہمراہ کھانے سے قبل۔

مردہ لوگ منہ کے بل گرے پڑے تھے

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بستی سے گزرے جس میں سب لوگوں کو مردہ پایا اور وہ گلیوں میں مونہوں کے بل گرے پڑے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے بہت متعجب ہوئے اور فرمایا اے حواریو! یہ سب لوگ (اللہ کے)عذاب اورغضب کی بھینٹ چڑھ گئے ہیںاگر یہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں مرتے تو ایک دوسرے کو دفن کرتے۔ انہوں نے عرض کیا اے روح اللہ! ہم چاہتے ہیں کہ ان کے قضیہ اور قصہ کو معلوم کریں۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس کے متعلق دعا فرمائی تو ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ جب رات کا وقت ہو تو ان کو بلانا، یہ تمہیں جواب دیں گے۔
جب رات آئی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بلند جگہ پر چڑھ گئے اور پکارا۔ اے بستی والو! تو ان میں سے ایک شخص نے ان کو جواب دیا، لبیک یا روح اللہ۔ فرمایا تمہارا کیا قضیہ ہے؟ عرض کیا اے روح اللہ! رات کو ہم عافیت سے سوئے تھے لیکن صبح کو ہلاکت میں جاگرے، فرمایا ایسا کیوںہوا؟ عرض کیا، ہماری دنیا سے محبت کی وجہ سے ، بدکاروں کی فرمانبرداری کی وجہ سے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا دنیا سے تمہاری محبت کیسی تھی؟ کہا جس طرح سے بچے کو ماں سے ہوتی ہے، جب وہ سامنے آئی ہم خوش ہوئے، جب چلی گئی ہم غمگین ہوئے اور رونے لگے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ، اے فلانے تیرے ساتھیوں کو کیا ہوا، وہ کیوں نہیں جواب دیتے؟ کہا ان کو طاقتور سخت فرشتوں کے ہاتھوں دوزخ کی لگام پڑی ہوئی ہے۔ فرمایا، پھر تو نے مجھے کیسے جواب دیا تو بھی تو ان میں سے ہے؟کہا ہوں تو میں ان میں لیکن ان میں سے نہیں ہوں، جب ان پر عذاب آیا تو ان کے ساتھ مجھ پر بھی آپڑا، میں اس وقت دوزخ کے کنارے پر لٹکایا گیا ہوں، مجھے پتہ نہیں مجھے اس سے نجات ملے گی یا اس میں جھونک دیا جائوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔ (حلیہ ابو نعیم61/4، بحرالدموع، آنسوئوں کا سمندر63)

(بڑی بوڑھیوں کے آزمودہ گھریلو ٹوٹکے)

(بڑی بوڑھیوں کے آزمودہ گھریلو ٹوٹکے)

٭اگر انگور کے چھلکے اتارنا ہوں تو انگور کے خوشے کو دو منٹ کیلئے گرم پانی میں ڈبو دیں پھر دو منٹ کیلئے خوب ٹھنڈے پانی میں بھگو دیں پھر آسانی سے چھلکے ا تر جائیں گے ۔
٭اگر ڈبل روٹی رکھے رکھے باسی ہوگئی ہو تو فوائل میں لپیٹ کر گیس مارک کر کے اوون میں دس منٹ کیلئے رکھ دیں ڈبل روٹی بالکل تازہ ہو جائے گی۔
٭لپ اسٹک کے داغ اگر کپڑوں میں لگ جائیں تو ان داغوںپر ہیئر اسپرے اچھی طرح چھڑک کر دس منٹ بعد کسی بھی واشنگ پاﺅڈر سے دھو لیں۔ اور پھر فورا استری کر لیں داغ مٹ جائیں گے۔
٭صبح نہانے کے بعد صرف پیر کے انگوٹھوں پر سرسوں کے تیل کا مساج کریں سارا دن تھکن کا احساس نہیں ہو گا۔
٭چاول پکاتے وقت ایک کھانے کا چمچہ سفید سرکہ ڈال دیں چاول ہمیشہ کھلے کھلے پکیں گے۔
٭مٹر کو زیادہ عرصے تک رکھنے کیلئے اس کے دانے نکال کر فریز کر لیجئے اور بارہ مہینے مٹر کے مزے لیں ۔
٭کرسٹل کے برتن دھونے کے لئے پانی میں سفید سرکہ اور واشنگ پاﺅڈر ملا کر برتن کو ڈبو کر کسی ٹوتھ برش کی مدد سے صاف کریں۔برتن چمک اٹھیں گے۔
٭چائے کے خالی ٹی بیگ آنکھوںپر رکھنے سے آنکھوں کی تھکن دور ہو جاتی ہے۔
٭ہینگ کا استعمال کھانوں میں نہ صرف ذائقہ لاتا ہے بلکہ یہ ہاضمے کیلئے بھی مفیدہے۔
٭سبزیاں پکاتے وقت پکنے کے دوران آدھا چمچہ سرکہ ڈالنے سے سبزیوںکا رنگ قائم رہتا ہے ۔
٭روٹی پکانے سے پہلے آٹے کو آدھ گھنٹہ کیلئے ڈھانک کر رکھ دیں اس طرح آٹا صحیح رہتاہے اور اس کے پیڑے خراب نہیں ہوتے۔
٭آنکھوں میں روزانہ رات کو سرمہ لگانے سے آنکھوں کی بینائی تیزہوجاتی ہے۔
٭اگر نالیاں بند ہو جائیں تو تیزاب ڈال کر کچھ دیر کے لئے چھوڑ دیں۔تمام بند نالیاں کھل جائیںگی۔
٭اگر آپ کو قے آرہی ہو تودو تین چھوٹی الائچی چبالیں قے بند ہو جائے گی۔
٭روزانہ انار کا شربت پینے سے ہونٹ سرخ ہو جاتے ہیں۔
٭ جن لوگوں کو قبض رہتی ہے انہیں چاہئے کہ وہ رات کو سونے سے قبل دودھ میں تھوڑا سا مکھن ملا کر پی لیں انشاءاللہ قبض دور ہو جائے گی۔
٭کلونجی کو بھون کر سونگھنے سے زکام کی شدت میں کمی آ جاتی ہے ۔
٭موٹاپے سے بچنے کے لئے روزانہ نہار منہ لیموں کی چائے کا استعمال کریں۔
٭کپڑے پر لوہے کے زنگ کا داغ لسی سے صاف کیا جا سکتا ہے۔
٭گنے کا رس یرقان کے مریضوں کیلئے بڑا مفید ہے ۔
٭چیونٹیوں سے بچنے کیلئے شکر کے ڈبے میں تین چار لونگ ڈال دیں۔
٭کھیرا چھیلنے کے بعد چھلکے کو کچرے میں نہ پھینکیں انہیں واش بیشن باورچی خانے کی نالی اور کونے کھدروں میں ڈال دیں لال بیگ نہیں آئیں گے۔
٭اسپرین کی گولیاں پانی میں ملا کر پھولوں پر چھڑکیں تو پھولوں کی تازگی اور شگفتگی دیر تک برقرار رہتی ہے۔
٭مچھلی پکائی جائے تو پورے کچن میں اس کی بو پھیلتی جاتی ہے۔ کسی برتن میں ابلے ہوئے پانی میں تین سے چار ٹی اسپون سرکہ ڈال کر باورچی خانے میں رکھ دیں تو بوختم ہو جاتی ہے۔
٭بھنڈیوں کو پکاتے یا ابالتے وقت ان پر اگر لیموں کے چند قطرے یا ’دو ٹی اسپون ‘املی کا پانی ملا دیں تو ان کی نرمی پکنے کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔پھول گوبھی کی رنگت کو پکانے کے دوران بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔ اس کیلئے آپ یہ کریں کہ پکاتے وقت اس میں لیموںکا چھلکا ڈال دیں۔

بدزبانی سے چھٹکارے کیلئے

سورة الشمس:اگر کوئی شخص بہت بدزبان ہوتو 41 مرتبہ اس سورة کو پڑھ کر پانی پر دم کرکے پلائیں انشاءاللہ اس کی بدزبانی ختم ہوجائے گی۔

اچھی ازدواجی زندگی کیلئے

رخصتی کے بعد سسرال پہنچنے تک دوران سفر لڑکی یَارَوفُ پڑھتی رہے سارا راستہ پڑھی رہے جب تک دولہا ملنے نہ آئے تب تک ورد کرتی رہے۔ انشاءاللہ ازدواجی زندگی بہت اچھی گزرے گی اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ آسانیاں فرمائینگے۔

منہ میں چھالے

موبائل فون کی ٹارچ آن کرکے اندھیرے کمرے میں جاکر جہاں کوئی روشنی نہ ہو۔ ٹارچ کے آگے بلیو رنگ کا (سلافین پیپر) جو مٹھائی کے ٹوکروں پر لگایا جاتا ہے لگادیں ۔ دو تین مرتبہ تہہ لگا کر اب ایک مرتبہ درود ابراہیمی باوضو پڑھیں اور متاثرہ جگہ پرکچھ دیر کیلئے ٹارچ کی روشنی ڈالیں پھر روشنی ختم کردیں اور ایک مرتبہ پھر درود ابراہیمی پڑھیں۔
صرف دو تین کریں چھالے بالکل ٹھیک ہوجائیں گے اور تکلیف سے بھی نجات مل جائے گی۔

Tuesday 19 June 2012

صدقہ بیماریوں اور مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے۔

سعودی عرب میں ایک مصری عالم نے صدقہ کی عظمت و فضیلت پر ایک دلنشین لیکچر ارشاد فرمایا‘ انہوں نے دوران گفتگو احادیث مبارکہ کے حوالے سے ذکر کیا کہ صدقہ بلاؤں‘ مصیبتوں اور بیماریوں سے نجات پانے کا بہترین اور آزمودہ نسخہ ہے‘ مصری عالم کی گفتگو کے دوران ایک مصری آدمی ہی کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ واقعی آپ کی بات مبنی برحقیقت ہے‘ میں نے خود تجربہ کیا ہے کہ صدقہ انسان کو مصائب و الام اور موذی امراض سے بچاؤ کا ذریعہ بن جاتا ہے‘ اس شخص نے اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا ’’میں دل کے مرض میںمبتلا تھا‘ اور میرا مرض انتہائی نازک صورتحال اختیار کرچکا تھا مجھے دو دفعہ ہارٹ اٹیک بھی ہوا‘ مقامی ڈاکٹروں نے میری زندگی اور موت کے درمیان ایک لکیر سی کھینچ دی‘ مجھے اپنی موت کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے میں نے آخری چارے کے طور پر امریکہ کا رخ کیا اور وہاں ماہرین امراض دل سے رجوع کیا۔ ان کے علاج سے مجھے کچھ افاقہ تو ضرور ہوا مگر موت کے سائے ختم نہ ہوئے‘ پھر ہر تین ماہ بعد امریکہ جانا میرا معمول بن گیا۔ ادویات کے سہارے میری زندگی کی سانس چل رہی تھی کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ رونما ہوا‘ میں گوشت خریدنے کیلئے قصاب کی دکان پر گیا‘ وہاں ایک پردہ نشین خاتون کھڑی تھی‘ قصاب جب گوشت بناتے ہوئے فالتو چربی وغیرہ نیچے پھینکتا تو اگر اس کے ساتھ معمولی سا گوشت چپکا رہ جاتا تو وہ عورت لپک کر اسے اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈال لیتی‘ میں کافی دیر تک یہ منظر دیکھتا رہا بالآخر میں نے اس عورت سے پوچھ ہی لیا کہ اے میری مسلمان بہن یہ کیا ماجرا ہے؟ اس خاتون نے بتانے سے انکار کردیا‘جب میرا اصرار بڑھا تو اس نے چھلکتی آنکھوں سے بتایا کہ میرے گھرمیں سات ماہ سے گوشت نہیں پکا‘ حالات نے اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے کہ زندگی کی گاڑی بمشکل حرکت میں ہے آج میرے چھوٹے چھوٹے بچوں نے ضد کی کہ ہمیں گوشت پکا کر کھلاؤ‘ میں گوشت خرید نے کی طاقت نہیں رکھتی‘ اس لیے قصاب کی دکان سے فالتو چربی وغیرہ سے لگے ہوئے گوشت کے ذرات جمع کررہی ہوں کہ انہی کا شوربہ بنا کر اپنے معصوم بچوں کی خواہش کو پورا کردوں گی‘ اس کی درد بھری کہانی سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے‘ میں نے قصاب سے کہا کہ میری یہ بہن جب چاہے‘ جتنا چاہے گوشت خرید لے‘ اس کی قیمت میں ادا کروں گا اور اس خاتون سے کہا اے میری بہن! اسے ایک بھائی کی طرف سے قبول کیجئے اس کے بعد میں اپنے گھر آگیا‘ میرے دل کو اتنا سکون‘ راحت اور مسرت ملی کہ اس کے اثرات میرے چہرے بلکہ پورے بدن پر عیاں تھے‘ مجھے شاداں وفرحاں دیکھ کر میرے بچوں نے بڑی محبت سے پوچھا اباجان آج کیا ماجرا ہے؟ آپ کے چہرے پر تو ہمیشہ تفکرات سایہ کیے رکھتے ہیں… لیکن آج آپ کے انگ انگ سے مسرت و شادمانی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں‘ میں مناسب اور مختصر سے الفاظ میں نے انہیں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے آگاہ کیا اور اللہ کے حضور سربسجود ہوگیا کہ اس مالک حقیقی نے مجھے بھی اپنی مخلوق کی خدمت کا موقع دیا اور اس کے نتیجے میں مجھے اطمینان قلب کی دولت سے مالا مال کردیا کچھ عرصہ بعد میں حسب معمول امریکہ گیا تو میرے معالج میری ٹیسٹ رپورٹس دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میںمرض دل کے ہاتھوں موت کے منہ تک پہنچ چکا تھا‘ لیکن آج میری رپورٹس بالکل نارمل تھیں جیسے مجھے کبھی یہ مرض ہوا ہی نہیں تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھنا شروع کردیا کہ تم نے کونسا نسخہ استعمال کیا ہے؟ کس ڈاکٹر و معالج سے علاج کروایا ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ یہ کسی عام ڈاکٹر و معالج کا نسخہ نہیں بلکہ محسن انسانیت نبی کریم ﷺ کا آج سے چودہ سو سال پہلے بتایا ہوا نسخہ ہے کہ صدقہ بیماریوں اور مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے۔

زیارت نبویﷺ کیلئے

درود شریف اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ گیارہ سو بارپڑھیں۔ اول ا س درود شریف کی زکوٰۃ نکالیں اور وہ اس طرح کہ اکتالیس روز گیارہ ہزاربار اس درود شریف کو پڑھیں بعدازاں گیارہ سو بارروزانہ پڑھتا رہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت سے مشرف ہوگا اور روزی میں بھی کشادگی ہوگی۔(ص 175)

پیپسی یا ذہر

میں کوک پئیوں گا‘ مجھے پیپسی چاہیے‘ اس قسم کے جملے آپ کو اکثر سننے کو ملیں گے۔ ان مشروبات کی کسی بوتل میں اگر اُکھڑا ہوا دانت یا ناخن ڈال دیا جائے تو دو دن میں گل کر اور دو ہفتے میں اندر حل ہوجائے گا جبکہ یہی دانت‘ ہڈیاں اور ناخن انسان کے مرنے کے بعد ہزارہا سال تک محفوظ حالت میں مل سکتے ہیں۔ صحت کیلئے حد درجہ خطرناک ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ بچے دیوانہ واران مشروبات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اس مطالبے کی وجہ ان کمپنیوں کی طرف سے انتہائی سحرانگیز اور گمراہ کن اشتہار بازی ہے جس میں معصوم بچے مشہور کرکٹرز، فلم سٹارز اور من پسند ہیروئوں کو انتہائی جذباتی انداز میں یہ مشروب پیتے ہوئے دیکھ کر ان کے انداز میں ان کی نقالی کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چکاچوند ننھے منے بچوں کو مرعوب کرکے ان مشروب کا عادی بنا ڈالتی ہیں۔

ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ہم آدھا منافع اس بات پر خرچ کرنے کیلئے تیار ہیں کہ عوام کوئی اور مشروب مانگنے کی بجائے پیپسی یا کوک کا نام لے کر مشروب طلب کریں۔ ظاہر ہے اس اشتہار بازی کا خرچ استعمال کرنے والے ہی کی جیب سے پورا کیا جاتا ہے۔پیپسی یا کوک کیا ہے؟ یہ مشروب جن چیزوں کا مرکب ہیں شاید انہیں باریک انگریزی میں ڈھکن کے اندر ملاحظہ کرسکیں۔ یہ کیمیائی مادے درج ذیل ہیں:۔



کاربن ڈائی آکسائیڈ

قدرت اس زہریلی گیس کو جو خون کے ایک فضلے کی مانند ہے سانس کے ذریعے پھپھڑوں سے باہر نکالتی ہے لیکن پیپسی اور کوکاکولا میں پانی میں اس گیس کو گزار کر جذب کیا جاتا ہے جسے ہم منہ کے ذریعے اپنے معدے میں اتار دیتے ہیں اس گیس کو پانی میں گزارنے کے فعل سے کاربالک بنتا ہے اور ان مشروبات کی تیزابیت کا درجہ 3.4 ہوتا ہے یعنی انسانی جسم کی تیزابیت سے تین یا چار درجے تیز۔ اس درجے کی تیزابیت ہڈیوں اور دانتوں کو گھول کر رکھ دیتی ہے۔ انسانی ہڈیاں 30 سال کے بعد بننا بند ہوجاتی ہیں یعنی انسانی ڈھانچہ ہونے کی وجہ سے ہمارے انسانی نظام اور معدے پر دوچند بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ ایک تیزابیت کی وجہ سے اور دوسرا مشروب کے درجہ حرارت کی وجہ سے جو عموماً 0 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جبکہ جسم کا درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ اس فرق کو ملانے کیلئے معدے کو فاضل کام کرنا پڑتا ہے۔ کھانے کے دوران ان مشروبات کے استعمال سے ہاضمے کے مددگار کیمیائی مادے تحلیل ہوکر معدے پر مزید بوجھ ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے معدہ جلد ہی جواب دے جاتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر معدے میں گیسیں اور دیگر زہریلے مادے بنتے ہیں جو انتڑیوں میں جذب ہوکر جسم کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیتے ہیں۔



فاسفورک ایسڈ

اس کا تیزابی مادہ ہمارے جسم کی ہڈیوں اور دانتوں سے کیلشیم کے مادے کا اخراج کرتا ہے۔ مسلسل استعمال سے ہڈیوں کی شکست وریخت ہونے کی وجہ سے ہڈیوں کا درد‘ کمر کا درد اور بعض اوقات معمولی چوٹ سے ہڈیوں کا ٹوٹ جانا عام علامت ہے۔ اس بیماری کو ہڈیوں کی کمزوری کہا جاتا ہے۔



کیفین

یہ اعصابی نظام کو تحریک دینے والی نشہ آور دوا ہے جس کے استعمال سے آدمی وقتی طور پر بیدار‘ تازہ دم اور خوشی محسوس کرسکتا ہے۔ پانچ چھ گھنٹے میں اس کا اثر ختم ہونے پر کمزوری‘ سستی‘ اضمحال اور بوریت محسوس کرتا ہے۔

کیفین کے زیادہ استعمال سے ہیجان‘ بے چینی‘ رعشہ‘ دل کی تیز دھڑکن کے ساتھ دل کی چال میں تبدیلی آسکتی ہے۔ سردرد کے ساتھ دردوں تک کی نوبت آسکتی ہے۔ کیفین کی مقدار عام بوتل میں 35 سے 50 ملی گرام تک جبکہ ڈیڑھ لیٹر کی بوتل میں 200 ملی گرام تک موجود ہوتی ہے۔



سوڈیم بینزوئیٹ

یہ مضر کیمیائی مادہ مشروبات کو سڑنے سے روکتا ہے لیکن اس کاکثرت سے استعمال ہائی بلڈپریشر کا باعث بنتا ہے۔



ایتھائی لین گلائی کول

یہ مشہور اینٹی فریز ہے جو گاڑیوں میں پانی کو جمنے سے بچانے کیلئے ڈالا جاتا ہے۔ یہ سنکھیا سے ملتا جلتا آہستہ عمل کرنے والا زہر ہے جس کے نتیجے میں اگر ایک گھنٹے میں چار لیٹر کولا مشروب پینے سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ دو ڈھائی لیٹر پینے سے بے ہوشی طاری ہوسکتی ہے۔



رنگدار مادے

سرخ امارنتھ اور برائون بورڈیکس قابل ذکر ہیں۔ جو تحقیقات کے مطابق کینسر کا باعث بنتے ہیں اور انسانی صحت کیلئے مضر اثرات رکھتے ہیں۔



پیپسی اور کولا کے عمومی نقصانات

ذہنی صحت پر اثر سے بچے کو ضدی بناڈالتے ہیں ماں باپ کو تنگ کرنا اور آپس میں مارکٹائی کارجحان زیادہ ہوجاتا ہے اور ذہانت میں کمی آجاتی ہے۔

٭ بچوں کی جسمانی صحت پر اثر کرکے پہلی صورت میں بظاہر موٹا بچہ لیکن اندرونی طور پر کمزور اور سست جبکہ دوسری صورت میں بھوک کے مارے جانے سے پیلی رنگت کا لاغر بچہ جس کی آنکھوں کے گرد حلقے اور چہرے پر مردنی ہوگی۔

٭ ان مشروبات کا کثرت سے استعمال جگر کے امراض کا باعث بنتا ہے جو کہ اس مرض کی الکحل مشروبات کے بعد دوسری بڑی وجہ ہے۔

٭ لمبے عرصے تک استعمال سے معدے کی جھلی کو نقصان‘ ہائی بلڈپریشر اور شوگر کی بیماری میں زیادتی ہوجاتی ہے۔ شوگر کے مریضوں کیلئے ڈائیٹ کولا بھی حد درجہ مضر اثرات رکھتا ہے۔

٭ حاملہ عورت میں ان مشروبات کا استعمال بچے کی جسمانی بناوٹ میں خرابی کے علاوہ معذور بچوں کی پیدائش کا سبب بن سکتا ہے جس کی شرح ہمارے معاشرے میں بڑھ رہی ہے۔



متبادل صحت مند مشروبات

دودھ کے مشروبات سادہ یا ذائقہ دار‘ مثلاً الائچی اور بادام پستے کی کترن کے ساتھ مشروبات٭ ادرک اور شہد کے ساتھ٭ کھجور کے مرکب کے ساتھ٭ ملک شیک‘ آم‘ کیلا‘ سیب‘ لسی سادہ یا ذائقہ دار٭ خشخاش بادام کے ساتھ٭ ٹھنڈے پانی کے مشروبات٭ سکنجبین گُڑ‘ لیموں اور نمک کیساتھ٭ آلو بخارے اور املی کا شربت٭ تخم ملنگا اور گوند کتیرا٭ دیگر مشروبات مثلاً شربت الائچی‘ شربت بزوری وغیرہ٭ تازہ جوسز مثلاً گاجر کا جوس‘ سیب اور گاجر کا جوس‘ انار‘ سبز قہوہ۔

اگر آپ کے بیت الخلا کا نکاس بند ہوجائے تو رات پیپسی یا کوکاکولا کی لیٹر یا ڈیڑھ لیٹر والی بوتل ڈال دیں۔ صبح فلش کریں تو نکاس کھل چکا ہوگا۔

جس گھر میں کتا ہو‘ وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا

بائولے پن کی بیماری کتے کے علاوہ گیدڑ‘ بھیڑیے‘ لومڑی‘ لگڑبگڑ اور دوسرے جانوروں کے کاٹنے سے بھی ہوجاتی ہے اب تک یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ بائولہ جانور جب تندرست جانور کو کاٹتا ہے تو کچھ عرصے بعد اس تندرست جانور کو بھی بائولہ پن ہوجاتا ہے لیکن امریکہ میں ماہرین نے تجربات سے معلوم کیا کہ چند جانور ایسے بھی ہیں جو خود تو بائولے نہیں ہوتے لیکن اس بیماری کے جراثیم ان کے جسم میں موجود رہتے ہیں اس لیے وہ خود بیمار ہوئے بغیر دوسروں کو بائولہ کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں چمگادڑ کا نام سرفہرست ہے۔
پاگل کتا جب کاٹتا ہے‘ تو کچھ عرصے بعد (یہ عرصہ مہینوں اور برسوں پر محیط ہوسکتا ہے) مریض کو اعصابی تشنج‘ مرگی کی طرح کے دورے اور منہ سے جھاگ نکلنے کی تکالیف شروع ہوتی ہیں۔
حلق میں فالج کے باعث پانی پینا ممکن نہیں رہتا۔ تشنجی دوروں کی وجہ سے اکثر اوقات پسلیاں یا ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے زبان‘ دانتوں میں آکر کٹ سکتی ہے۔ دوروں کے درمیانی وقفے میں مریض کی حالت اچھی بھلی ہوتی ہے۔
بائولہ پن‘ سرطان اور تپ دق سے زیادہ مہلک ہے۔ اس بیماری کا علاج بیماری کے حملے سے پہلے ہوسکتا ہے۔ علامات ظاہر ہوجائیں تو پھر مریض کی موت پانچ روز کے اندر اندر واقع ہوجاتی ہے جبکہ کتوں میں زندگی کا عرصہ دس روز تک طویل ہوسکتا ہے۔
بھاٹی دروازے میں کسی کتے نے ایک دنبے کو کاٹ لیا یہ دنبہ پہلے ہی روز مرگیا۔ راولپنڈی میں ایک بھینس‘ بائولے پن کے بعد صرف سات روز تک زندہ رہ سکی۔اب تک جو معلومات حاصل ہوئیں‘ ان کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے سفارش کی ہے کہ کتا کاٹے کے زخم کو پانچ منٹ تک صابن اور پانی سے اچھی طرح دھویا جائے۔ان تلخ حقیقتوں میں گھرا ہوا جب میں خدا کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکیمانہ قول پر غور کرتا ہوں تو اسلام کی عظمت پر میرا ایمان ناقابل تسخیر بن جاتا ہے۔ ”جس گھر میں کتا ہو‘ وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا“

اپنے جسم سے ناقص کاربن نکالیں

آپ دماغی محنت کرنے والے ہیں رات سونے سے پہلے تیز پھونکیں ماریں دیوار سے تقریباً دو فٹ کا فاصلہ کرکے تصور کریں کہ سامنے موم بتی جل رہی ہے میں نے موم بتی بھجانی ہے اور موم بتی بجھانے کے انداز میں تیز پھونکیں ماریں آپ کے اندر سے ناقص کاربن نکل جائے گی صحت مند آکسیجن داخل ہوگی۔ چہرے پر سرخی لالی‘ صحت میں تراوٹ اور پرسکون نیند۔

معدے کے تمام امراض کیلئے ایک خاندانی راز

 ترکیب ۔

چینی باریک ایک پائو پسی ہوئی‘ میٹھا سوڈا ایک چھٹانک اور ست پودینہ ایک تولہ‘ یعنی پورا ایک تولہ(12 گرام) چینی اور میٹھا سوڈا آپس میں ملائیں اور پھر ست پودینہ اس میں ملا کر خوب رگڑیں اتنا کہ چینی میٹھا سوڈا اور ست پودینہ آپس میں یکجان ہوجائیں۔ کسی ہوا بند ڈبے میں بوتل میں محفوظ رکھیں۔ زیادہ مقدار میں نہ بنائیں‘ نمی کے موسم میں جم جاتا ہے۔ بناتے رہیں‘ استعمال کرتے رہیں‘ آدھا چمچ کھانے کے بعد‘ دن میں تین دفعہ بھی لے سکتے ہیں‘ اگر طبیعت زیادہ خراب ہو تو بار بار بھی لے سکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 اس کا سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ سینے کی جلن‘ پیاس کی زیادتی‘ گرمی کی شدت‘ کھانا ہضم نہ ہونا یا ہضم ہوئے بغیر نکل جانا‘ دائمی قبض ہونا‘ اجابت کھل کر نہ آنا‘ ذہنی تفکرات‘ ذہنی دبائو ‘ بچوں کے دست‘ اجابت‘ بچوں کی الٹی‘ بچوں کا موٹا تازہ نہ ہونا‘ بھوک نہ لگنا‘ طلب غذا کی نہ ہونا‘ تھوڑا سا کھا کر چھوڑ دینا اور بڑوں کیلئے ایسے جو قے متلی سے بدحال ہوجاتی ہیں یا کسی چیز کو کھانے کو جی نہیں چاہتا‘ یا ایسے مصروف لوگ جو وقت بے وقت کھانا کھاتے ہیں پھر انہیں صحیح ہضم نہیں ہوتا‘ پیٹ بڑھ رہا ہے‘ جسم میں چربی بھر رہی ہے۔ 

گرمی کے روزوں میں‘ بندش میں جلن میں پیاس کی زیادتی کو ختم کرتا ہے‘ خاص طور پر افطاری کے بعد جو گھبراہٹ ہوتی ہے اس کے استعمال کرنے سے اس کو فوراً افاقہ ہوتا ہے۔ اگر صبح سحری کے بعد اس کو کھالیا جائے تو سارا دن پیاس‘ بھوک‘ شدت حدت اور نڈھالی سے روزے دار بچا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دوا یعنی سفید پائوڈر دل کی گھبراہٹ کیلئے دل کے وہ مریض جو بائی پاس کراچکے ہیں یاکرانے والے ہوں یا دل کے کسی بھی مرض میں مبتلا ہوں ان کیلئے بہت موثر ثابت ہوا ہے۔ 

 دل کی گھبراہٹ کیلئے‘ اعصاب کے کھچائو کیلئے‘ طبیعت کی بے چینی اور نڈھالی کیلئے‘ ذہن کی اور طبیعت کی تراوٹ کیلئے بہت زیادہ موثر۔ 

 یہ دوا ہر موسم میں مفیدہے۔ یہ صرف موسم گرما کیلئے مخصوص نہیں‘ جتنا فائدہ موسم گرما میں دیتی ہے اتنا ہی فائدہ موسم سرما میں دیتی ہے۔ 

 

 بشکریہ ماہنامہ عبقری

 

پانی سے پیچیدہ بیماریوںکا علاج

طریقہ علاج:صبح سویرے اٹھیں‘ اٹھ کر وضو کریں اور نماز فجر ادا کریں‘ نماز فجر ادا کرنے بعد ذکرو اذکار کریں۔ ٭ پانی کا گلاس 250 ملی لیٹر (ایک پائو) کاہو۔ ٭ پانی کے تین سے چار گلاس خالی پیٹ پئیں اور گھڑی پر وقت نوٹ کریں جو لوگ آفس اور دوسرے امور سرانجام دیتے ہیں انہیں پانی وقت کے وقفے کومدنظر رکھ کر پینا ہوگا۔ پانی پینے کے کم ازکم ڈیڑھ گھنٹہ یا دو گھنٹے بعد ناشتہ کریں۔ ناشتے کے بعد پانی بالکل بھی نہیں پینا۔ ویسے بھی کھانا کھانے کے بعد پانی پینا صحت کیلئے مضر ہے۔ پھر ڈیڑھ سے دو گھنٹے کچھ کھانا نہیں ہے۔ ڈیڑھ سے دو گھنٹے بعد پانی کے تین سے چار گلاس پانی پئیں۔ اگر دوپہر کا کھانا دو بجے ہے تو بارہ بجے لازماً پانی پینا شروع کردیں پھر کھانے کے بعد دوبارہ اتنا ہی وقفہ دینے کے بعد پانی پی لیں۔ اگر رات کے کھانے کا وقت آٹھ بجے ہے تو شام چھ بجے پانی پئیں۔ پھر کھانے کے بعد چہل قدمی کریں۔ رات کو بستر پر لیٹتے وقت پانی نہیں پینا۔ نیز پانی کسی جگ یا بوتل میں لیں جب پہلا گلاس پئیں تو اس پر گیارہ مرتبہ درود شریف تین مرتبہ سورة الفاتحہ گیارہ بار درود شریف پڑھیں بہتر یہ ہے کہ اس جگ یا بوتل میں پانی پر پڑھ لیں پھر پانی پئیں۔ انشاءاللہ یقینی فائدہ ہوگا۔

سسرال والوں کا دل کیسا جیتں؟





سسرال والوں کا دل کیسا جیتں؟





ہر ماں باپ کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کسی اچھی فیملی کسی اچھے لڑکے کے ساتھ منسوب کریںاور جب ایسا ہو جاتا ہے تو ان کا دل دوسرے وسو سوںمیںگھر نے لگتا ہے ۔لخت جگر کی شادی ایک بہت بڑا امتحاں ہے جس میں غم اور خوشی دونوں عنصر موجود ہوتے ہیں ۔والدین بہن بھائی او رسہیلیاں سب اسے آنسووں کی برسات میں رخصت کرتی ہیں ۔اس وقت ان کی زبان پر ایک ہی دعا ہوتی ہے اے اللہ اسے تمام خوشیاں دینا کہ سدا سہاگن رہے اپنے گھر میںخوشحال زندگی بسر کرے ۔سسرال والوں کی آنکھ کا تارا بنی رہے ۔

دعاوں کی سوغات کے ساتھ سسرال جانے والی لڑکی کی ذمے داری بھی بڑھ جاتی ہے ۔اسے خد کو مکمل طور پر بدلنا پڑتا ہے ایک لڑکی اپنے میکے میں اگرخوب شوخ طبیعت کی مالک ہے تو سسرال میں اسے اپنے مزاج کی اس شوخی پر قابو پانا ہوتا ہے ۔ایک خوشحال زندگی کے لے ضروری ہے کہ وہ وقت سے پہلے اندازہ لگالے کہ سسرال والے کسیے ہیں۔

اس گھر کا ماحول کیسا ہے ۔

رہن سہن کیا ہے ۔

کتنے افراد ہیںاور کون کس مزاج کا ہے ۔

شوہر کا مزاج کیسا ہے ۔

اگر سسرال والوں کا مزاج اچھا ہے ۔سب ملنسار ہیں خوب ہنستے ہنساتے ہیں خوش مزاج ہیں تو ہر لڑکی ایسے ماحول میںگزارہ کر سکتی ہے لیکن اگر وہ سب ہر کام ایک حد میں رہ کر کرنے کے عادی ہیںتو لڑکی کو بھی اپنا مزاج تھوڑا تبدیل کر لینا پڑے گا ۔سسرال والے اگر کم گو ہیں تو لڑکی کو بھی اپنی زبان اورمزاج پر قابو رکھنا ہو گا

شوہر کے مزاج میں غصہ ہے تواس وقت نہ تو شو خیاں کر نا چاہیے اور نہ ہی خود اپنا غصہ ظاہر کر نا چاہیے ۔خاموش رہنا ہی ضروری ہے ۔بعد میں جب موڈ خوشگوار ہو جائے تو نہایت نرمی اور پیار سے غصے کی وجہ معلوم کرنا چاہیے ۔

بیوی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سب سے زیادہ اپنے شوہر پر توجہ دے اوراس کا کہنا مانے فرمانبرادار رہے شوہر جب اول روز سے ہی بیوی کو فرما نبردار پائے گا تو وہ خود بھی وفا دار رہے گا یاد رہے کہ آپ کو صرف شوہر کے ساتھ ہی نہیں رہنا بلکہ اس کے پورے گھر کے ساتھ رہنا ہے ۔ آپ کو نہ صرف شوہر کی پرواہ کریں گی تو باقی گھر والوں سے آپ کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

آپ کو نہ صرف شوہر سے بلکہ اس کے تمام گھر والوں سے بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے ۔

شادی کے بعد بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے ۔ماں باپ کے گھر لڑکی بہت آزاد ہوتی ہے ۔اسے فیصلوں میں اسے خود مختاری حاصل ہوتی ہے ۔اپنی مرضی سے کھانا پینا سونا جاگنا ہوتا ہے جب کہ شادی کے بعد ایسا نہیںہوتا اور ہونا بھی نہیںچاہیں ۔جب آپ ایک نئے ماحول میں آئی ہیں توخود کو اس ماحول کا عادی بنانے کے لے بھر پور کوشش کریں ۔بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد ہر بات میں سسرال کے لیے یہاں کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔مثلا ہمارے یہاںتو یہ نہیں ہوتا یا ہماری امی کے گھر تو سالن دوسرے طریقے سے بنتا ہے ۔میںتویہاں یہی سب دیکھ رہی ہوں ۔سان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا سسرال والوںسے غیریت برت رہی ہیں ۔اپنی سسرال کی طرف سے ہر اس تقریب میں شرکت کریںجس میں سسرال والے آ پ کی شمولیت چاہتے ہیں ۔ہر شخص سے خلوص سے ملیں سب کے نام اور رشتے یاد درکھنے کی کوشش کریں سب سے گھل مل جائیں اگر کوئی آپ کی ساس یا نند سے ملنے آتا ہے تو آپ اس کو برا بر کی عزت دیں ۔ساس کی رشتہ دار خوتین سے احترام سے ملیں۔

نندوں کی سہیلیوںسے اپنی سہیلیوں کی طرح ملیں ۔آپ سلام دعااچھے طریقے سے کر کے ان کی خاطر تواضح کا بندوبست کریں۔اس سے آنے والے پر بہت اچھا اثر ہو گا ۔اگر آپ کی سسرال کی طرف سے کوئی تحفہ آپ کو ملتا ہے وہ خوشی خوشی قبول کر یں آپ کو پسند نہ بھی آئے توبھی دینے والے کا شکریہ ادا کریں ۔آپ کو کوئی جوڑا ملا ہے تو اسے استعمال کریںکوئی سجاوٹ کی چیز ہے تواسے اپنے کمرے میں سجائیں ۔اگر کوئی شے آپ کو واقعی پسند آجائے تودل سے تعریف کریں ۔کچھ لڑکیاں ہر معاملے میں اپنی ناپسند گی کا اظہار کرتی ہیں اس طرح ا ن کو صرف برا کہنے والا ہی سمجھ لیا جاتاہے اوراگر واقعی کسی معاملے میں ناپسند گی کا اظہار کریں تو کوئی انہیں اہمیت نہیں دیتا کہ یہ تو ہر وقت یہی بولتی ہے جس پر ان کو برا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری توکوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔

اپنے آپ کو سسرال کے ماحول میںڈھال لینا ہی اچھی لڑکی کا کام ہے ۔عموما خواتین اپنے میکے کی تقرریبات میں تو دل کھول کر خرچ کر نا پسند کرتی ہیں جب کہ سسرال کی تقریب میںواجبی سی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے شوہر کی نظر میں ان کا مقام بلند نہیںہوپاتا ۔دونوں طرف کے رشتوں میںتوازن کرنا سکھائیں۔

قسمت سے آپ کو اچھی سسرال مل گئی ہے تو اس کی قدر کریں ۔اگر خدا نخواستہ سسرال والے اچھے نہیں توصبر سے کا م لیں۔ہر آئے گے سے ان کی برائی مت سننے والے مزے سے سن کر بات آگ بیاں کر دیتے ہیں سمجھ دار لوگ توکبھی بھی ایسی لڑکیوں کو پسند نہیں کر تے ۔وہ ایسی لڑکیوں کی صحبت سے ا پنی بیٹیوں کو دور رکھتے ہیں ۔

عورت اورمرد دونوں کا ہی یہ فرض ہے کہ مل جل کر نئی زندگی کی ابتدا کریں ۔بیوی شوہر اور سسرال کے دوسرے لوگوں کو موقع ہی نہ دے کہ اس پر کوئی بات آئے کیوں کہ سمجھانے والے کم اور تماشہ دیکھنے والے بہت ہوتے ہیں ۔عزت ہر ایک کی ہوتی ہے اوردونوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔

دونوںمیں سے جو بھی غلطی کو ماننے کی ہمت بھی رکھے ۔یہاں سسرال والوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایک لڑکی کی جو پانا سب کچھ چھوڑ کر آپ کے پاس آتی ہے اسے اکیلا نہ کریں اسے اپنے ماحول میںرچنے بسنے کا موقع دیں غلطی کرے تو بیٹی سمجھ کر اس کی مد د رکریں ۔

یاد رہیایک چپ سو رک ہراتی ہے کچھ پانے کے لے کچھ کھونا ہی پڑتا ہے۔اتنے ڈھیر سارے لوگوں کا پیار پانے کے لے آپ کو اپنے جذبات و احساسات کو تھوڑا سا تھپکنا ہو گا ۔کوئی شک نہیں ہے کہ ایک دن آپ کامیاب ہو جائیں گی

Monday 18 June 2012

محبوب آپ کے قدموں میں

ایک عورت گاؤں کے عالم   کو وہ روایتی والا   عامل سمجھتی تھی جو  گنڈے اور تعویذ کا کام کرتا ہے۔ اس لیئے جاتے ہی  اس نے فرمائش کر ڈالی کہ مجھے ایسا عمل کر دیجئے کہ میرا خاوند میرا مطیع بن کر رہے اور مجھے ایسی محبت دے  جو دنیا میں کسی عورت نے نا پائی ہو۔ بندہ عامل ہوتا تو جھٹ سے تعویذ لکھتا اور اپنے پیسے کھرے کرتا، وہ جانتا تھا کہ خاتون اسے کچھ اور ہی سمجھ کر اپنی مراد پانے کیلئے آئی بیٹھی ہے۔ یہی  سوچ کر عالم صاحب نے کہا، محترمہ، تیری  خواہش بہت بڑی ہے لہٰذہ   اس کے عمل کی قیمت بھی بڑی  ہوگی، کیا  تم  یہ قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہو؟ عورت نے کہا میں بخوشی ہر قیمت دینے کیلئے تیار ہوں۔ عالم نے کہا ٹھیک ہے تم مجھے شیر کی گردن سے ایک بال خود اپنے ہاتھوں سے توڑ کر لا دو تاکہ میں اپنا عمل شروع کر سکوں۔

شیر کی گردن کا بال اور وہ بھی میں اپنے ہاتھ سے توڑ کر لا دوں؟ جناب آپ اس عمل کی قیمت روپوں میں مانگیئے تو میں ہر قیمت دینے کو تیار ہوں مگر یہ توآپ عمل نا کر کے دینے والی بات کر رہے ہیں! آپ جانتے ہی ہیں کہ شیر ایک خونخوار اور وحشی جانور ہے۔ اس سے پہلے کی میں اس کی گردن تک پہنچ کر اسکا  بال حاصل کر پاؤں وہ مجھے پہلے ہی پھاڑ کھائے گا۔

عالم نے کہا، بی بی، میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اس عمل کے لئے شیر کی گردن کا بال ہی لانا ہوگا اور وہ بھی تم اپنے ہاتھ سے توڑ کر لاؤ گی۔ اس عمل کو بس اسی طرح ہی کیا جا سکتا ہے۔

عورت ویسے تو مایوس ہو کر ہی وہاں سے چلی مگر  پھر بھی اس نے اپنی چند ایک راز دان سہیلیوں اور مخلص احباب سے مشورہ کیا تواکثر کی زبان سے یہی سننے کو ملا کہ کام اتنا ناممکن تو نہیں ہے کیونکہ شیر تو بس اسی وقت ہی خونخوار ہوتا ہے جب بھوکا ہو۔  شیر کو کھلا پلا کر رکھو  تو اس کے شر سے بچا جا سکتا ہے۔ اس عورت نے یہ نصیحتیں اپنے پلے باندھیں اور جنگل میں جا کر  آخری حد تک جانے کی ٹھان لی۔

عورت شیر کیلئے  گوشت پھینک کر  دور چلی جاتی اور شیر آ کر یہ گوشت کھا لیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ  شیر اور اس  عورت میں الفت بڑھتی چلی گئی اور  فاصلے آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گئے۔  اور آخر وہ دن آن ہی پہنچا جب شیر کو اس عورت کی محبت میں کوئی شک و شبہ نا رہا تھا۔ عورت نے گوشت ڈال کر اپنا ہاتھ شیر کے سر پر پھیرا تو شیر نے طمانیت کے ساتھ اپنی آنکھیں موند لیں۔ یہی وہ لمحہ تھا عورت نے آہستگی سے شیر کی گردن سے ایک بال توڑا اور وہاں سے بھاگتے ہوئے سیدھا عالم کے پاس پہنچی۔ بال اس کے ہاتھ پر رکھتے ہی پورے جوش و خروش کے ساتھ بولی، یہ لیجیئے شیر کی گردن کا بال۔ میں نے خود اپنے ہاتھ سے توڑا ہے۔ اب عمل کرنے میں دیر نا لگائیے۔  تاکہ میں اپنے خاوند کا دل ہمیشہ کیلئے جیت کر اس سے ایسی محبت پا سکوں جو دنیا کی کسی عورت کو نا ملی ہو۔

عالم نے عورت سے پوچھا، یہ بال حاصل کرنے کیلئے تم نے کیا کیا؟

عورت نے جوش و خروش کے ساتھ پوری داستان سنانا شروع کی کہ وہ کس طرح شیر کے قریب پہنچی، اس نے جان لیا تھا کہ بال حاصل کرنے کیلئے شیر کی رضا حاصل کرنا پڑے گی۔ اور یہ رضا حاصل کرنے کیلئے شیر کا دل جیتنا پڑے گا جب کہ شیر کے دل  کا راستہ اس کے معدے سے ہو کر جاتا ہے۔ پس شیر کا  دل جیتنے کیلئے اس نے شیر کے معدے کو باقاعدگی سے بھرنا شروع کیا۔ اس کام کے لئے ایک بہت صبر آزما انتظار کی ضرورت تھی اور آخر وہ دن آ پہنچا جب وہ شیر کا دل جیت چکی تھی اور اپنا مقصد پانا اس کیلئے بہت آسان ہو چکا تھا۔

عالم نے  عورت سے کہا، اے اللہ کی بندی؛ میں نہیں سمجھتا کہ تیرا خاوند اس شیر سے زیادہ وحشی ،  اجڈ اور خطرناک ہے۔ تو اپنے خاوند کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیوں نہیں کرتی جیسا سلوک تو نے اس شیر کے ساتھ کیا۔ جان لے کہ مرد کے دل کا راستہ بھی اس کے معدے سے ہی  ہو کر گزرتا ہے۔ خاوند کے پیٹ کو بھر کر رکھ، مگر  صبر کے ساتھ، ویسا صبر جیسا شیر جیسے جانور کو دوست بننے کے مرحلے تک میں  کیا تھا۔

بیوی کا عاشق

کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔

دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُسکا خاوند اُس کیلئے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کیلئے شعر کہتا تھا۔

عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔

جب اس عورت سے اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا

کہ آیا وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟

یا  وہ بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت ہے؟

یا وہ بہت زیادہ عیال دار اور بچے پیدا کرنے والی عورت رہی ہے؟

یا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟

تو عورت نے یوں جواب دیا کہ

خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کی ذات کے  بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔  اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت  کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوراگر  یہی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی  بھر سکتی ہے۔

مت سوچیئے کہ  مال و دولت خوشیوں کا ایک سبب ہے۔ تاریخ کتنی  مالدار عورتوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے خاوند اُن کو اُنکے مال متاب سمیت چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے۔

اور نا ہی عیالدار اور بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی خوبی ہے۔ کئی عورتوں نے دس دس بچے  پیدا کئے مگر نا خاوند اُنکے مشکور ہوئے اور نا ہی وہ اپنے خاوندوں سے کوئی خصوصی التفات اور محبت پا سکیں بلکہ طلاق تک نوبتیں جا پہنچیں۔

اچھے کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں رہ کرمزے مزے کے کھانے پکا کر بھی عورتیں خاوند کے غلط معاملہ کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور خاوند کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہیں بنا پاتیں۔

تو پھر آپ ہی بتا دیں اس  پُرسعادت اور خوشیوں بھری زندگی  کا کیا راز ہے؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان پیش آنے والے مسائل اور مشاکل سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟

اُس نے جواب دیا: جس وقت میرا  خاوند غصے میں آتا تھا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں  ( نہایت ہی احترام کے ساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ احترام کےساتھ خاموشی کا یہ  مطلب ہے کہ آنکھوں سے حقارت اور نفرت نا جھلک رہی ہو اور نا ہی  مذاق اور سخریہ پن دکھائی دے رہا ہو۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال اور ایسے معاملے کو  بھانپ لیا کرتا ہے۔

اچھا تو آپ ایسی صورتحال میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟

اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا  نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی، خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے نا صرف یہ کہ سُننا بلکہ اُس کے کہے سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔ میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جایا کرتی تھی، کیونکہ اس ساری چیخ و پکار اور شور و شرابے والی گفتگو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کام کاج میں مشغول ہو جاتی تھی، بچوں کے کام کرتی، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے میں وقت گزارتی اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور بھگانے کی کوشش کرتی جو میری خاوند نے میرے ساتھ کی تھی۔

تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اختیار کرلینا اور خاوند سے ہفتہ دس دن کیلئے بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟

اُس نے کہا: نہیں، ہرگز نہیں،  بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا فعل اور خاوند کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دو رُخی تلوار کی مانند ہے۔  اگر تم اپنے خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کیلئے یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ  اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو  اُس میں  تم سے دو ہفتوں تک نا بولنے کی استعداد آ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔ خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے  بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے آکسیجن کی مانند ہو اور تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہے۔اگر ہوا بننا ہے تو ٹھنڈی اور لطیف ہوا بنو نا کہ گرد آلود اور تیز آندھی۔

اُس کے بعد آپ کیا کیا کرتی تھیں؟

اُس عورت نے کہا: میں دو گھنٹوں کے بعد یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس کا ایک  گلاس یا پھر گرم چائے کا یک کپ بنا کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت ہی سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہوتا تھا۔ میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی  کہ گویا  ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات ہوئی ہی نہیں۔

جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔جبکہ میرا ہر بار اُس سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔ اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویئے کی معذرت کرتا تھا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔

تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟

ہاں، بالکل، میں اُن باتوں پر بالکل یقین کرتی تھی۔ میں جاہل نہیں ہوں۔


کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھ سے غصے میں کہہ ڈالتا تھا اور اُن باتوں پر یقین نا کروں جو وہ مجھے پر سکون حالت میں کرتا تھا؟

تو پھر آپکی عزت اور عزت نفس کہاں گئی؟

کاہے کی عزت اور کونسی عزت نفس؟ کیا عزت اسی کا نام ہے تم غصے میں آئے ہوئے  ایک شخص کی تلخ و ترش باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نا دو جو وہ تمہیں پیار بھرے  اور پر سکون ماحول میں کہہ رہا ہے!

میں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔

جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل کے اندر موجود تو ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے۔