ہر قوم کی ملا قات کے وقت کچھ کلمات کہنے کی عادات ہو تی ہیں ۔کوئی گڈ ما
رننگ کہتا ہے تو کوئی نمستے ، کوئی گڈ ایوننگ بولتا ہے ، توکوئی ہا ئے ،
کوئی سر جھکاتا تو کوئی ہا تھ جو ڑتا ہے ۔
مگر مسلمہ امہ کے ہا ں ملا قات کے وقت بہت ہی خوبصورت اور دلکش انداز رائج ہے جو کہ رب ذوالجلا ل کا عطا کر دہ بہترین تحفہ ہے ۔ ”السلام علیکم ورحمة اللّٰہ “ شہکا ر ِ کائنات، حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے۔ (1 ) ہرمسلمان کو سلام کر نا چاہیے خوا ہ اسے پہچانتا ہو یا نہ ہو ۔ (بخاری )(2 )زبان سے السلام علیکم کہے ہاتھ سے ، سر سے یا انگلی کے اشارے سے سلام کرنا یا اس کا جوا ب دینا سنت کے خلا ف ہے۔ اگر دوری ہو تو زبان اور ہا تھ دونو ں سے سلام کرے ۔ (ترمذی )(3 ) کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو تو سلام کے بعد مصافحہ کرنا مسنون ہے ۔عورت عور ت سے مصافحہ کر سکتی ہے ۔ (مشکوة ) (4 )اللہ تعالیٰ کے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔ جہا ں سے مسلمانو ں کی ابتداءہوئی وہی سے سلام کی بھی ابتدا ءہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا کہ جا ﺅ فرشتو ں کو سلام کر و اور دیکھو کہ وہ کیا جوا ب دیتے ہیں ۔ جو جواب وہ آپ کو دیں وہ آپ کا اور آپ کی اولا د کا ملا قاتی ہدیہ ہو گا ۔
سلا م جہا ں ملا قاتی ہدیہ ہے وہاں دلو ں کو قریب کرنے کا خوبصورت ذریعہ ہے ۔ محبتیں اور نیکیا ں سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اللہ جل جلا لہ کاقرب اور سر دار انبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مزے بھی سلا م دلا تا ہے ۔ یہ وہ خوبصورت کلمات ہیں جو کہ رب جلیل بھی جنتیو ں سے فرمائیں گے ۔ دراصل ”سلام “ تو اللہ کریم کا صفاتی نام ہے ۔ جس کے معنی (سلا متی والا ) ” وہ ذات جس سے حفاظت و عا فیت کی امید رکھی جا ئے “ ”السلام جل جلا لہ‘ ‘ وہ ذات جو تمام عیبو ں سے اور تما م نقا ئص سے پا ک ہو اور اپنی ذات و صفات اور افعال میں کامل ہو ۔ معلوم ہو اکہ امن و سلامتی صرف اسی ” السلام جل جلا لہ “ کی طر ف سے ہے ورنہ ہم کیا اور ہما ری حفاظت کا سامان کیا۔ جب وہ ذات اپنی سلامتی کو اٹھا لے تو ہما رے سارے انتظاما ت دھرے کے دھرے رہ جا تے ہیں ۔ مثلا ً ہما رے یہ پا لتو جا نور جو دل و جا ن سے ہما ری خدمت کر تے ہیں ذراسی دیر میں ہمیں دوسرے جہا ن بھی پہنچا سکتے ہیں ۔ شہنشاہِ ایران جمشید کے بارے آتا ہے کہ ایک دفعہ بڑا ہی خوبصورت گھوڑا کہیں سے آکر اس کے محل کے دروازے پر کھڑا ہوگیا ۔ با دشا ہ نے جب اُس حسین گھوڑے کو دیکھا تو کہا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ہی بھیجا ہے ۔ لگا م لگا ﺅ اور زین کسو کہ میں اس پر سواری کا لطف اٹھا ﺅ ں ۔ خادموں نے بڑا زور لگا یا مگر کوئی بھی اسے لگا م نہ لگاسکا ۔با دشا ہ کہنے لگا کہ یہ مجھ سے ہی لگا م لگوائے گا ۔ چنا نچہ با دشاہ نے اس پر ز ین کسی ۔ گھوڑا آرام سے کھڑا رہا مگر جب وہ اس کی دم میں ز ین کی ڈوری لگانے لگا تو ا س نے ایسی لا ت ما ری کہ با د شاہ وہیں دم توڑ گیا ۔ یہی با ت ہے کہ اگر سلا متی دینے والا اپنی سلامتی اٹھا لے تو دوسرے لمحے ہلا کت و تبا ہی ہما را مقدر بن سکتی ہے ۔ بات تو السلام علیکم ور حمة اللہ و بر کا تہ‘ پر ہو رہی تھی ۔ سلام کہنے کی فضیلت حبیب کبریا ا نے کتنے خوبصورت انداز میں بیان فرمائی ہے ۔ ارشا د ہے۔ ( 1) سلام کو خوب پھیلا ﺅ تا کہ تم بلند ہو جا ﺅ ۔(2 )سلام میں پہل کر نے والا تکبر سے بری ہے (3 )جب تم گھر میں داخل ہو تو اس گھر والو ں کو سلام کرو اور جب گھر سے جانے لگو تو گھر والو ں سے سلام کے ساتھ رخصت ہو ۔ (4)جو مسلمان روزانہ بیس مسلمانوں کو سلام کرے اللہ تعالیٰ جنت اس کے لیے واجب کر دیتے ہیں ۔ (5 )تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک مو من نہ ہو جاﺅ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دو ںجس کے کرنے سے تمہا رے درمیا ن محبت پیدا ہو جائے وہ یہ ہے کہ سلام کو آپس میں خو ب پھیلا ﺅ ۔
سلام کا پھیلا نا اسلام کے بڑے بڑے شعا ئر میں سے ہے ۔ سلا م کرنا مسلما نو ں کے لیے بہت بڑی سنت ہے ۔ فرمانِ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اے لو گو ! تم لو گو ں کو کھا نا کھلاﺅ ، رشتہ دارو ں سے صلہ رحمی کرو۔ سلام کو عام کر و ،را ت کے وقت نماز پڑھو، جب لو گ سو رہے ہو ں تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاﺅ گے۔ بھائیو سلامتی اور عا فیت صر ف اور صرف اللہ ہی سے مانگنی چاہیے ۔ مال کی سلامتی کے لیے بہنوں اور بھائیو ں کا حق نہ دبا یا جا ئے ۔ مال ہو تے ہوئے اپنے اوپر قرض نہ رکھا جائے ۔ لوگو ں کو دارالسلام کی طر ف دعوت دی جائے ۔ سلام کی کثر ت کی جائے ہم سے سلام کر نے میں کوئی سبقت نہ لے جائے ، کیونکہ سناہے کہ سلام میں پہل کرنے والے کو نو ے (90 )نیکیا ں اور جو اب دینے والے کو دس (10 )نیکیا ں ملتی ہیں ۔ روز مرہ زندگی میں ہر ملاقاتی سے بات کرنے سے پہلے السلام علیکم ورحمة اللّٰہ کہنے کا اہتمام کیا جائے ۔ آخر میں روزی میں بر کت کا بہترین و مجرب نسخہ بھی ذہن نشین کرلیں ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میںحاضر ہو کر اپنی غریبی و محتا جی کی شکا یت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فرمایا : جب تم گھر میں داخل ہوا کر وتو السلام علیکم کہہ کر داخل ہوا کر و خوا ہ گھر میں کوئی ہو یا نہ ہو ۔ پھر مجھ پر سلا م عر ض کر و۔” السلا م علیکم ایھا النبی ورحمت اللہ و بر کا تہ ‘ “ اور ایک با ر سورة اخلا ص پو ری پڑھ لیا کرو ۔ ۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا پھر مالکِ کائنا ت نے اس کو اتنا مالا ما ل کر دیا کہ اس نے اپنے ہمسا یو ں اور رشتہ داروں کی بھی خدمت کی ۔ (السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کا تہ )
مگر مسلمہ امہ کے ہا ں ملا قات کے وقت بہت ہی خوبصورت اور دلکش انداز رائج ہے جو کہ رب ذوالجلا ل کا عطا کر دہ بہترین تحفہ ہے ۔ ”السلام علیکم ورحمة اللّٰہ “ شہکا ر ِ کائنات، حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے۔ (1 ) ہرمسلمان کو سلام کر نا چاہیے خوا ہ اسے پہچانتا ہو یا نہ ہو ۔ (بخاری )(2 )زبان سے السلام علیکم کہے ہاتھ سے ، سر سے یا انگلی کے اشارے سے سلام کرنا یا اس کا جوا ب دینا سنت کے خلا ف ہے۔ اگر دوری ہو تو زبان اور ہا تھ دونو ں سے سلام کرے ۔ (ترمذی )(3 ) کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو تو سلام کے بعد مصافحہ کرنا مسنون ہے ۔عورت عور ت سے مصافحہ کر سکتی ہے ۔ (مشکوة ) (4 )اللہ تعالیٰ کے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔ جہا ں سے مسلمانو ں کی ابتداءہوئی وہی سے سلام کی بھی ابتدا ءہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا کہ جا ﺅ فرشتو ں کو سلام کر و اور دیکھو کہ وہ کیا جوا ب دیتے ہیں ۔ جو جواب وہ آپ کو دیں وہ آپ کا اور آپ کی اولا د کا ملا قاتی ہدیہ ہو گا ۔
سلا م جہا ں ملا قاتی ہدیہ ہے وہاں دلو ں کو قریب کرنے کا خوبصورت ذریعہ ہے ۔ محبتیں اور نیکیا ں سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اللہ جل جلا لہ کاقرب اور سر دار انبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مزے بھی سلا م دلا تا ہے ۔ یہ وہ خوبصورت کلمات ہیں جو کہ رب جلیل بھی جنتیو ں سے فرمائیں گے ۔ دراصل ”سلام “ تو اللہ کریم کا صفاتی نام ہے ۔ جس کے معنی (سلا متی والا ) ” وہ ذات جس سے حفاظت و عا فیت کی امید رکھی جا ئے “ ”السلام جل جلا لہ‘ ‘ وہ ذات جو تمام عیبو ں سے اور تما م نقا ئص سے پا ک ہو اور اپنی ذات و صفات اور افعال میں کامل ہو ۔ معلوم ہو اکہ امن و سلامتی صرف اسی ” السلام جل جلا لہ “ کی طر ف سے ہے ورنہ ہم کیا اور ہما ری حفاظت کا سامان کیا۔ جب وہ ذات اپنی سلامتی کو اٹھا لے تو ہما رے سارے انتظاما ت دھرے کے دھرے رہ جا تے ہیں ۔ مثلا ً ہما رے یہ پا لتو جا نور جو دل و جا ن سے ہما ری خدمت کر تے ہیں ذراسی دیر میں ہمیں دوسرے جہا ن بھی پہنچا سکتے ہیں ۔ شہنشاہِ ایران جمشید کے بارے آتا ہے کہ ایک دفعہ بڑا ہی خوبصورت گھوڑا کہیں سے آکر اس کے محل کے دروازے پر کھڑا ہوگیا ۔ با دشا ہ نے جب اُس حسین گھوڑے کو دیکھا تو کہا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ہی بھیجا ہے ۔ لگا م لگا ﺅ اور زین کسو کہ میں اس پر سواری کا لطف اٹھا ﺅ ں ۔ خادموں نے بڑا زور لگا یا مگر کوئی بھی اسے لگا م نہ لگاسکا ۔با دشا ہ کہنے لگا کہ یہ مجھ سے ہی لگا م لگوائے گا ۔ چنا نچہ با دشاہ نے اس پر ز ین کسی ۔ گھوڑا آرام سے کھڑا رہا مگر جب وہ اس کی دم میں ز ین کی ڈوری لگانے لگا تو ا س نے ایسی لا ت ما ری کہ با د شاہ وہیں دم توڑ گیا ۔ یہی با ت ہے کہ اگر سلا متی دینے والا اپنی سلامتی اٹھا لے تو دوسرے لمحے ہلا کت و تبا ہی ہما را مقدر بن سکتی ہے ۔ بات تو السلام علیکم ور حمة اللہ و بر کا تہ‘ پر ہو رہی تھی ۔ سلام کہنے کی فضیلت حبیب کبریا ا نے کتنے خوبصورت انداز میں بیان فرمائی ہے ۔ ارشا د ہے۔ ( 1) سلام کو خوب پھیلا ﺅ تا کہ تم بلند ہو جا ﺅ ۔(2 )سلام میں پہل کر نے والا تکبر سے بری ہے (3 )جب تم گھر میں داخل ہو تو اس گھر والو ں کو سلام کرو اور جب گھر سے جانے لگو تو گھر والو ں سے سلام کے ساتھ رخصت ہو ۔ (4)جو مسلمان روزانہ بیس مسلمانوں کو سلام کرے اللہ تعالیٰ جنت اس کے لیے واجب کر دیتے ہیں ۔ (5 )تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک مو من نہ ہو جاﺅ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دو ںجس کے کرنے سے تمہا رے درمیا ن محبت پیدا ہو جائے وہ یہ ہے کہ سلام کو آپس میں خو ب پھیلا ﺅ ۔
سلام کا پھیلا نا اسلام کے بڑے بڑے شعا ئر میں سے ہے ۔ سلا م کرنا مسلما نو ں کے لیے بہت بڑی سنت ہے ۔ فرمانِ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اے لو گو ! تم لو گو ں کو کھا نا کھلاﺅ ، رشتہ دارو ں سے صلہ رحمی کرو۔ سلام کو عام کر و ،را ت کے وقت نماز پڑھو، جب لو گ سو رہے ہو ں تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاﺅ گے۔ بھائیو سلامتی اور عا فیت صر ف اور صرف اللہ ہی سے مانگنی چاہیے ۔ مال کی سلامتی کے لیے بہنوں اور بھائیو ں کا حق نہ دبا یا جا ئے ۔ مال ہو تے ہوئے اپنے اوپر قرض نہ رکھا جائے ۔ لوگو ں کو دارالسلام کی طر ف دعوت دی جائے ۔ سلام کی کثر ت کی جائے ہم سے سلام کر نے میں کوئی سبقت نہ لے جائے ، کیونکہ سناہے کہ سلام میں پہل کرنے والے کو نو ے (90 )نیکیا ں اور جو اب دینے والے کو دس (10 )نیکیا ں ملتی ہیں ۔ روز مرہ زندگی میں ہر ملاقاتی سے بات کرنے سے پہلے السلام علیکم ورحمة اللّٰہ کہنے کا اہتمام کیا جائے ۔ آخر میں روزی میں بر کت کا بہترین و مجرب نسخہ بھی ذہن نشین کرلیں ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میںحاضر ہو کر اپنی غریبی و محتا جی کی شکا یت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فرمایا : جب تم گھر میں داخل ہوا کر وتو السلام علیکم کہہ کر داخل ہوا کر و خوا ہ گھر میں کوئی ہو یا نہ ہو ۔ پھر مجھ پر سلا م عر ض کر و۔” السلا م علیکم ایھا النبی ورحمت اللہ و بر کا تہ ‘ “ اور ایک با ر سورة اخلا ص پو ری پڑھ لیا کرو ۔ ۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا پھر مالکِ کائنا ت نے اس کو اتنا مالا ما ل کر دیا کہ اس نے اپنے ہمسا یو ں اور رشتہ داروں کی بھی خدمت کی ۔ (السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کا تہ )