سلف صالحین کی اپنے دوستوں کو تین نصیحتیں
1- جو آدمی آخرت کے کامو ں میں لگ جا تا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے کاموں کی ذمہ داری لے لیتے ہیں ۔
2- جو شخص اپنے باطن کو صحیح کر لے اللہ اس کے ظاہر کو صحیح فرما دیتے ہیں۔
3- جو اللہ تعالیٰ سے اپنا معاملہ صحیح کر لیتا ہے۔اللہ اس کے اور مخلو ق کے درمیا ن کے معاملات کو صحیح کر دیتے ہیں، دنیا ذلیل ہو کر اس کے قدمو ں میں گرتی ہے۔(معارف القرآن جلد 4 صفحہ 679)
1- مَن عَمِلَ لِاٰخِرَ تَہ کَفَاہُ اللّٰہُ اَمرَ دُنیاہ‘
2- وَ مَن اَصلَحَ سَرِیرَ تَہ اَصلَحَ اللّٰہُ عَلاَنیتہ
3- وَمَن اَصلَحَ فِیما بَینَہ وَ بَینَ اللّٰہِ اَصلَحَ اللّٰہُ مَا بَینَہ‘ وَ بَینَ النَّا سِ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تقویٰ
حضرت ایاس بن سلمہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ( حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بازار سے گزرے۔ ان کے ہا تھ میں کو ڑا بھی تھا، انہوں نے آہستہ سے وہ کوڑا مجھے مارا جو میر ے کپڑے کے کنارے کو لگ گیا اور فرمایا، راستہ سے ہٹ جاﺅ ۔ جب اگلا سال آیا تو آپ کی مجھ سے ملا قات ہوئی ، مجھ سے کہا اے سلمہ ! کیا تمہا را حج کا اراد ہ ہے؟ میں نے کہا جی ہا ں ، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور مجھے چھ سو درہم دئیے اور کہا انہیں اپنے سفر حج میں کام لے آنا اور یہ اس ہلکے سے کو ڑے کے بدلہ میں ہیں جو میں نے تم کو ما را تھا۔ میں نے کہا کہ اے امیر المومنین! مجھے تو وہ کوڑا یا د بھی نہیں رہا ۔فرما یا لیکن میں تو اسے نہیںبھو لا ۔ یعنی میں نے مار تو دیا لیکن سارا سال کھٹکتا رہا۔ (حیا ة الصحابہ جلد 2 صفحہ 125)
1- جو آدمی آخرت کے کامو ں میں لگ جا تا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے کاموں کی ذمہ داری لے لیتے ہیں ۔
2- جو شخص اپنے باطن کو صحیح کر لے اللہ اس کے ظاہر کو صحیح فرما دیتے ہیں۔
3- جو اللہ تعالیٰ سے اپنا معاملہ صحیح کر لیتا ہے۔اللہ اس کے اور مخلو ق کے درمیا ن کے معاملات کو صحیح کر دیتے ہیں، دنیا ذلیل ہو کر اس کے قدمو ں میں گرتی ہے۔(معارف القرآن جلد 4 صفحہ 679)
1- مَن عَمِلَ لِاٰخِرَ تَہ کَفَاہُ اللّٰہُ اَمرَ دُنیاہ‘
2- وَ مَن اَصلَحَ سَرِیرَ تَہ اَصلَحَ اللّٰہُ عَلاَنیتہ
3- وَمَن اَصلَحَ فِیما بَینَہ وَ بَینَ اللّٰہِ اَصلَحَ اللّٰہُ مَا بَینَہ‘ وَ بَینَ النَّا سِ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تقویٰ
حضرت ایاس بن سلمہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ( حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بازار سے گزرے۔ ان کے ہا تھ میں کو ڑا بھی تھا، انہوں نے آہستہ سے وہ کوڑا مجھے مارا جو میر ے کپڑے کے کنارے کو لگ گیا اور فرمایا، راستہ سے ہٹ جاﺅ ۔ جب اگلا سال آیا تو آپ کی مجھ سے ملا قات ہوئی ، مجھ سے کہا اے سلمہ ! کیا تمہا را حج کا اراد ہ ہے؟ میں نے کہا جی ہا ں ، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور مجھے چھ سو درہم دئیے اور کہا انہیں اپنے سفر حج میں کام لے آنا اور یہ اس ہلکے سے کو ڑے کے بدلہ میں ہیں جو میں نے تم کو ما را تھا۔ میں نے کہا کہ اے امیر المومنین! مجھے تو وہ کوڑا یا د بھی نہیں رہا ۔فرما یا لیکن میں تو اسے نہیںبھو لا ۔ یعنی میں نے مار تو دیا لیکن سارا سال کھٹکتا رہا۔ (حیا ة الصحابہ جلد 2 صفحہ 125)