حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیوں فرمائے؟ (تحریر: ڈاکٹر نور احمد نور، فزیشن ملتان)
کا فی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیا قت میڈیکل کا لج جامشورہ میں سروس کررہا تھا تو وہا ں لڑکو ں نے سیر ت نبی ا کا نفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ما ہر تھا ) کے ہمرا ہ اس مجلس میں شرکت کی۔ اس مجلس میں ایک اسلامیات کے لیکچرار نے حضور اقدس ا کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شا دی کیوں کی او ر اس سے امت کو کیا فائدہ ہو ا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سرا ہا ۔ کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کا ر آرہے تھے توڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو نے عجیب بات کی ۔ اس نے کہا کہ آج رات میں دو با رہ مسلمان ہو ا ہو ں ۔ میں نے تفصیل پو چھی تو اس نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گیا تو کرا چی سے انگلستا ن کا سفر کا فی لمبا تھا ، ہوا ئی جہا ز میں ایک ائیر ہو سٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پو چھا کہ تمہا را مذہب کیا ہے ؟ میں نے بتا یا، اسلام ۔ ہما ر ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پو چھا ، میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتا یا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلو م ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیا رہ شا دیا ں کی تھیں؟میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ با ت حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دو تین اور باتیں کیں ، جس کے سننے کے بعدمیرے دل میں (نعو ذ بااللہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نفرت پیدا ہوئی ۔ جب میں لندن کے ہو ائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتو ار کو میں گرجو ں میں جا تا اور وہا ں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے ۔ جب میں آٹھ سال بعد وا پس پاکستا ن آیاتو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیا قت میڈیکل کالج میں کا م شر و ع کیا ۔ یہا ں بھی میری وہی عا دت رہی ۔ آج رات اس لیکچرا ر کا بیا ن سن کر میرا دل صاف ہو گیا اورمیں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے ۔
غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر ڈاکٹر عنا یت اللہ یہ بیا ن نہ سنتا تو پتہ نہیں اس کا کیا بنتا ۔ اس کی و جہ ہم مسلمانو ں کی کم علمی ہے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کو شش کرتے ہیں ۔ کئی میٹنگو ں میںجب کوئی ایسی با ت کر تا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے ، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والو ں کے حوصلے بلند ہو جا تے ہیں ۔ اس لیے بہت اہم ہے کہ ہم اس مو ضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر صحیح با ت لو گو ں کو بتائیں ۔ ایک دفعہ بہا ولپور سے ملتان بذریعہ بس میںسفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لو گو ں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شا دیو ں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا ۔ میںنے اس کے قریب جانے کی کو شش کی اور بات شروع کی تو وہ چپ ہو گیا اور با قی لو گ بھی ادھر ادھر ہو گئے۔ لو گو ں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و نامو س کی خاطر جانیں قربان کی ہیں کیا ہما رے پا س اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یا د کر لیں اور موقع پر لو گو ں کو بتائیں ۔ اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہا ں ایک جما عت کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستا ن میں ڈاکٹر صاحب کے کا فی دو ست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے وہ ان کو اس موضوع پر صحیح اطلا ع کرتے رہتے ہیں ۔ انہو ں نے چیدہ چیدہ نکا ت بتائے ،جو میں لکھ کر پیش کر رہا ہو ں۔
اتوا ر کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ” گر جا گھر “ چلے جا تے ہیں ، وہا ں اپنا تعارف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کر اتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شا دیو ں پر اعتراض کر تی ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
(1) میرے پیا رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم شبا ب میں (25 سال کی عمر میں )ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے شا دی کی ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں آپ نے دوسری شا دی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خوا ہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کر تا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفا ت کے بعد مختلف وجو ہا ت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کئے ۔ پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ یہا ں بہت سے نو جوان بیٹھے ہیں۔ آ پ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شا دی کر ے گا....؟سب نے No, No کہا ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیا رہ شا دیا ں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں سوائے ایک کے با قی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیمو ں کا کوئی سہا را نہ رہا ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکا ح کیے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شا دیا ں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرا نے آبا د ہوگئے (2)ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داما د بن جاتاا س کے خلا ف جنگ کر نا اپنی عزت کے خلا ف سمجھتے ۔ جنا ب ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھا ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکا ح ہو اتو یہ دشمنی کم ہو گئی ۔ ہو ایہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ شروع میں مسلما ن ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجر ت کر گئیں ، وہا ں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے اس سے علیحدگی اختیا ر کی اور بہت مشکلا ت سے گھر پہنچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور با دشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا (3) حضرت جو یر یہ رضی اللہ عنہ کا وا لد قبیلہ معطلق کا سر دار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہا د کیا ، ان کا سر دار ما را گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کر کے سر دا رکی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکا ح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔(4 ) خیبر کی لڑائی میں یہو دی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحا بی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ا ن کا نکا ح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرادیا ۔ اسی طر ح میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکا ح کی وجہ سے نجد کے علا قہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شا دیو ں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔ (5 )حضر زینب بنت حجش سے نکا ح مبتنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنی کہلائے تھے ، ان کا نکاح حضرت زینب بنت حجش سے ہوا ۔ منا سبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلا ق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہر گز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا ۔
اپنا کلا م جا ری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پا ک اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت پا ک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفو ظ کرنے کے لیے مر دو ں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی اللہ عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتو ںمیں اس کا م کے لیے ایک جما عت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کا م کرنا مشکل تھا ۔ اس کا م کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکا ح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کو ارشا د فر مایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو را ت کے اندھیرے میں دیکھیں ۔
حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہ جو بہت ذہین ، زیرک اور فہیم تھیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پر دہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہو تاہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے اس کا علم ہوتا ۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔
ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کے گھر عورتو ں کی دینی درسگا ہیں تھیں کیو نکہ یہ تعلیم قیا مت تک کے لیے تھی اور سار ی دنیا کے لیے دنیا کے لیے تھی اور ذرائع ابلا غ محدود تھے اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کا م کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا۔
آخرمیں ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ یہ مذکو رہ با لا بیا ن میں گر جو ں میں لوگوں کو بتا تا ہو ں اور وہ سنتے ہیں ۔ با قی ہدا یت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکا ت کو یا د کر لیں اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفا ع کر یں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ (آمین )
کا فی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیا قت میڈیکل کا لج جامشورہ میں سروس کررہا تھا تو وہا ں لڑکو ں نے سیر ت نبی ا کا نفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ما ہر تھا ) کے ہمرا ہ اس مجلس میں شرکت کی۔ اس مجلس میں ایک اسلامیات کے لیکچرار نے حضور اقدس ا کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شا دی کیوں کی او ر اس سے امت کو کیا فائدہ ہو ا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سرا ہا ۔ کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کا ر آرہے تھے توڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو نے عجیب بات کی ۔ اس نے کہا کہ آج رات میں دو با رہ مسلمان ہو ا ہو ں ۔ میں نے تفصیل پو چھی تو اس نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گیا تو کرا چی سے انگلستا ن کا سفر کا فی لمبا تھا ، ہوا ئی جہا ز میں ایک ائیر ہو سٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پو چھا کہ تمہا را مذہب کیا ہے ؟ میں نے بتا یا، اسلام ۔ ہما ر ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پو چھا ، میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتا یا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلو م ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیا رہ شا دیا ں کی تھیں؟میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ با ت حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دو تین اور باتیں کیں ، جس کے سننے کے بعدمیرے دل میں (نعو ذ بااللہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نفرت پیدا ہوئی ۔ جب میں لندن کے ہو ائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتو ار کو میں گرجو ں میں جا تا اور وہا ں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے ۔ جب میں آٹھ سال بعد وا پس پاکستا ن آیاتو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیا قت میڈیکل کالج میں کا م شر و ع کیا ۔ یہا ں بھی میری وہی عا دت رہی ۔ آج رات اس لیکچرا ر کا بیا ن سن کر میرا دل صاف ہو گیا اورمیں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے ۔
غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر ڈاکٹر عنا یت اللہ یہ بیا ن نہ سنتا تو پتہ نہیں اس کا کیا بنتا ۔ اس کی و جہ ہم مسلمانو ں کی کم علمی ہے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کو شش کرتے ہیں ۔ کئی میٹنگو ں میںجب کوئی ایسی با ت کر تا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے ، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والو ں کے حوصلے بلند ہو جا تے ہیں ۔ اس لیے بہت اہم ہے کہ ہم اس مو ضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر صحیح با ت لو گو ں کو بتائیں ۔ ایک دفعہ بہا ولپور سے ملتان بذریعہ بس میںسفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لو گو ں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شا دیو ں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا ۔ میںنے اس کے قریب جانے کی کو شش کی اور بات شروع کی تو وہ چپ ہو گیا اور با قی لو گ بھی ادھر ادھر ہو گئے۔ لو گو ں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و نامو س کی خاطر جانیں قربان کی ہیں کیا ہما رے پا س اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یا د کر لیں اور موقع پر لو گو ں کو بتائیں ۔ اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہا ں ایک جما عت کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستا ن میں ڈاکٹر صاحب کے کا فی دو ست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے وہ ان کو اس موضوع پر صحیح اطلا ع کرتے رہتے ہیں ۔ انہو ں نے چیدہ چیدہ نکا ت بتائے ،جو میں لکھ کر پیش کر رہا ہو ں۔
اتوا ر کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ” گر جا گھر “ چلے جا تے ہیں ، وہا ں اپنا تعارف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کر اتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شا دیو ں پر اعتراض کر تی ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
(1) میرے پیا رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم شبا ب میں (25 سال کی عمر میں )ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے شا دی کی ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں آپ نے دوسری شا دی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خوا ہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کر تا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفا ت کے بعد مختلف وجو ہا ت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کئے ۔ پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ یہا ں بہت سے نو جوان بیٹھے ہیں۔ آ پ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شا دی کر ے گا....؟سب نے No, No کہا ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیا رہ شا دیا ں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں سوائے ایک کے با قی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیمو ں کا کوئی سہا را نہ رہا ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکا ح کیے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شا دیا ں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرا نے آبا د ہوگئے (2)ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داما د بن جاتاا س کے خلا ف جنگ کر نا اپنی عزت کے خلا ف سمجھتے ۔ جنا ب ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھا ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکا ح ہو اتو یہ دشمنی کم ہو گئی ۔ ہو ایہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ شروع میں مسلما ن ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجر ت کر گئیں ، وہا ں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے اس سے علیحدگی اختیا ر کی اور بہت مشکلا ت سے گھر پہنچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور با دشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا (3) حضرت جو یر یہ رضی اللہ عنہ کا وا لد قبیلہ معطلق کا سر دار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہا د کیا ، ان کا سر دار ما را گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کر کے سر دا رکی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکا ح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔(4 ) خیبر کی لڑائی میں یہو دی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحا بی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ا ن کا نکا ح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرادیا ۔ اسی طر ح میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکا ح کی وجہ سے نجد کے علا قہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شا دیو ں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔ (5 )حضر زینب بنت حجش سے نکا ح مبتنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنی کہلائے تھے ، ان کا نکاح حضرت زینب بنت حجش سے ہوا ۔ منا سبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلا ق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہر گز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا ۔
اپنا کلا م جا ری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پا ک اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت پا ک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفو ظ کرنے کے لیے مر دو ں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی اللہ عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتو ںمیں اس کا م کے لیے ایک جما عت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کا م کرنا مشکل تھا ۔ اس کا م کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکا ح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کو ارشا د فر مایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو را ت کے اندھیرے میں دیکھیں ۔
حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہ جو بہت ذہین ، زیرک اور فہیم تھیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پر دہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہو تاہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے اس کا علم ہوتا ۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔
ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کے گھر عورتو ں کی دینی درسگا ہیں تھیں کیو نکہ یہ تعلیم قیا مت تک کے لیے تھی اور سار ی دنیا کے لیے دنیا کے لیے تھی اور ذرائع ابلا غ محدود تھے اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کا م کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا۔
آخرمیں ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ یہ مذکو رہ با لا بیا ن میں گر جو ں میں لوگوں کو بتا تا ہو ں اور وہ سنتے ہیں ۔ با قی ہدا یت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکا ت کو یا د کر لیں اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفا ع کر یں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ (آمین )