Sunday 27 October 2013

دستِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتیں

  دستِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتیں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی حالت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر وبرکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کر دیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :
ہاتھ جس سمت اُٹھایا غنی کر دیا
اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست بے نوا گدا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے، اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں :

(1) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ دوسروں کو فیض یاب کرتے رہے

حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :
فقال : ادن يا غلام، فدنا منه فوضع يده علي رأسه، وقال : بارک اﷲ فيک!
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر رکھا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔‘‘
حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فرأيتُ حنظلة يؤتي بالرجل الوارم وجهه وبالشاة الوارم ضرعها فيتفل في کفه، ثم يضعها علي صُلعته، ثم يقول : بسم اﷲ علي أثر يد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، ثم يمسح الورم فيذهب.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 72
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 191، رقم : 2896
هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 211
بخاري التاريخ الکبير، 3 : 37، رقم : 152
ابن حجر، الاصابه، 2 : 133
ميں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے بسم اﷲ علی اثرید رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اُتر جاتا۔‘‘

(2) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے بال عمر بھر سیاہ رہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس آپ بیتی کے وہ خود راوی ہیں :
قال لی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : ادن منی، قال : فمسح بيده علي رأسه ولحيته، قال، ثم قال : اللهم جمله و ادم جماله، قال : فلقد بلغ بضعا ومائة سنة، وما في رأسه ولحيته بياض الانبذ يسير، ولقد کان منبسط الوجه ولم ينقبض وجهه حتي مات.
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 77
عسقلاني، الاصابه، 4 : 599، رقم : 5763
مزي، تهذيب الکمال، 21 : 542، رقم : 4326
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمر پائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادم آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘

(3) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے خشک تھنوں میں دودھ اُتر آیا۔

سفرِ ہجرت کے دوران جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں پہنچے اور اُن سے کھانے کے لئے گوشت یا کچھ کھجوریں خریدنا چاہیں تو ان کے پاس یہ دونوں چیزیں نہ تھیں۔ حضور ں کی نگاہ اُن کے خیمے میں کھڑی ایک کمزور دُبلی سوکھی ہوئی بکری پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟ حضرت اُمِ معبدنے جواب دیا : لاغر اور کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اجازت ہو تو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا : دودھ تو یہ دیتی نہیں، اگر آپ دوہ سکتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوھا، آگے روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
فدعا بها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فمسح بيده ضرعها و سمي اﷲ تعالٰي ودعا لها في شاتها، فتفاجت عليه ودرّت فاجتبرت، فدعا بإناءِ يربض الرهط فحلب فيه ثجاً حتي علاه البهاء، ثم سقاها حتيّٰ رويت وسقٰي أصحابه حتي رووا و شرب آخرهم حتي أراضوا ثم حلب فيه الثانية علي هدة حتیّٰ ملأ الإناء، ثم غادره عندها ثم بايعها و ارتحلوا عنها.
حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 56
شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 252، رقم : 3485
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
هبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 778
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
عسقلاني، الاصابه، 8 : 306
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 230
ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 60
طبري، الرياض النضره، 1 : 471
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے منگوا کر بسم اﷲ کہ کر اُس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور اُم معبد کے لئے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کر دے اور اُس میں دودھ دوہ کر بھر دیا، یہاں تک کہ اُس میں جھاگ آگئی۔ پھر اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کو پلایا، وہ سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر دوسری بار دودھ دوہا۔ یہاں تک کہ وہی برتن پھر بھر دیا اور اُسے بطورِ نشان اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پاس چھوڑا اور اُسے اِسلام میں بیعت کیا، پھر سب وہاں سے چل دیئے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کا خاوند آیا، اُس نے دودھ دیکھا تو حیران ہوکر کہنے لگا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا نے جواباً آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ شریف اور سارا واقعہ بیان کیا، جس کا ذکر ہم متعلقہ مقام پر کر آئے ہیں۔ وہ بولا وہی تو قریش کے سردار ہیں جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ میں نے بھی قصد کرلیا ہے کہ اُن کی صحبت میں رہوں چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔
حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا قسم کھا کر بیان کرتی ہیں کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاتِ مبارکہ کے دس برس گزارے، پھر اڑھائی سالہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور گزرا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا۔ ان کے دورِ خلافت کے اواخر میں شدید قحط پڑا، یہاں تک کہ جانوروں کے لئے گھاس پھوس کا ایک تنکا بھی میسر نہ آتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے میری بکری اُس قحط سالی کے زمانے میں بھی صبح و شام اُسی طرح دودھ دیتی رہی۔

(4) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس سے لکڑی تلوار بن گئی۔

غزوۂ بدر میں جب حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں ایک سوکھی لکڑی عطا کی جو اُن کے ہاتھوں میں آکر شمشیرِ آبدار بن گئی۔
فعاد سيفا في يده طويل القامة، شديد المتن أبيض الحديدة فقاتل به حتي فتح اﷲ تعالٰي علي المسلمين وکان ذلک السيف يُسمّي العون.
ابن هشام، السيرة النبويه، 3 : 185
بيهقي، الاعتقاد، 1 : 295
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 411
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 308
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 1080، رقم : 1837
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 188
نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 310، رقم : 418
’’جب وہ لکڑی اُن کے ہاتھ میں گئی تو وہ نہایت شاندار لمبی، چمکدار مضبوط تلوار بن گئی، تو اُنہوں نے اُسی کے ساتھ جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور وہ تلوار عون (یعنی مددگار) کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘
جنگِ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جحش کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔
فرجع فی يد عبداﷲ سيفاً.
سيوطی، الخصائص الکبریٰ، 1 : 359
أزدی، الجامع، 11 : 279
ابن حجر، الاصابه، 4 : 36، رقم : 4586
’’جب وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں گئی تو وہ (نہایت عمدہ) تلوار بن گئی۔‘‘

5۔ دستِ اقدس کے لمسِ سے کھجور کی شاخ روشن ہو گئی

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ایک اندھیری رات میں طوفانِ باد و باراں کے دوران دیر تک حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی اور فرمایا :
إنطلق به فإنه سيضئ لک مِن بين يديک عشرا، و مِن خلفک عشراً، فإذا دخلت بيتک فستري سواداً فأضربه حتي يخرج، فإنه الشيطان.
قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفیٰ، 1 : 219
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 65، رقم : 11642
ابن خزيمه، صحيح، 3 : 81، رقم : 1660
طبراني، المعجم الکبير، 19 : 13، رقم : 19
هيثمي، مجمع الزوائد، 2 : 167
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 29
مناوي، فيض القدير، 5 : 73
’’اسے لے جاؤ! یہ تمہارے لئے دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہوگے تو تمہیں ایک سیاہ چیز نظر آئے گی پس تم اُسے اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ شاخ ان کے لئے روشن ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوگئے اور اندر جاتے ہی اُنہوں نے اُس سیاہ چیز کو پالیا اور اتنا مارا کہ وہ نکل گئی۔

(6) توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیرہ

بیہقی، ابو نعیم، ابن سعد، ابن عساکر اور زرقانی نے یہ واقعہ ابو منصور سے بطریق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیاہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کل اکیس نکلیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :
أدع عشرة، فدعوت عشرةً فأکلوا حتٰی شبعوا ثم کذالک حتٰی أکل الجيش کله و بقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فادخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها و أکلت منه حياة عمر کلها و أکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان إنتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق.
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة) 6 : 117
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 685، ابواب المناقب، رقم : 3839
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 352
ابن حبان، الصحيح، 14 : 467، رقم : 6532
اسحاق بن راھويه، المسند، 1 : 75، رقم : 3
بيهقي، الخصاص الکبریٰ، 2 : 85
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 631
’’دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے بلایا۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی رضی اللہ عنھم کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ اور جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ کیا تمہیں بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کنتی کھجوریں کھائیں ہوں گی؟ تخمیناً دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔‘‘
یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں مگر پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔

(7) دستِ شفا سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتیک دشمنِرسول ابو رافع یہودی کو جہنم رسید کر کے واپس آرہے تھے کہ اُس کے مکان کے زینے سے گر گئے اور اُن کی پنڈلی ٹوٹ گئی۔ وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی ٹانگ کھولو۔ وہ بیان کرتے ہیں :
فبسطتُ رجلی، فمسحها، فکأنّما لم أشتکها قط.
بخاری، الصحيح 4 : 1483، کتاب المغازي، رقم : 3813
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 80
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 56
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 946
ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 125، رقم : 134
 ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 139
ابن تيميه، الصارم المسلول، 2 : 294
’’میں نے اپنا پاؤں پھیلا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دستِ شفا پھیرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ کرم کے پھیرتے ہی میرے پنڈلی ایسی درست ہوگئی کہ گویا کبھی وہ ٹوٹی ہی نہ تھی۔‘‘

(8) دستِ اقدس کی فیض رسانی

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کا گورنر تعینات کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ مقدمات کے فیصلے میں میری ناتجربہ کاری آڑے آئے گی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سینے پر پھیرا جس کی برکت سے انہیں کبھی کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی فیض رسانی کا حال آپ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں :
فضرب بيده في صدري، و قال : اللهم اهد قلبه و ثبت لسانه. قال فما شککتُ في قضاء بين اثنين.
ابن ماجه، السنن، 2 : 774، کتاب الاحکام، رقم : 2310
عبد بن حميد، المسند، 1 : 61، رقم : 94
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 337
احمد بن ابي بکر، مصباح الزجاجه، 3 : 42، رقم : 818
سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 2 : 122
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ کرم میرے سینے پر مارا اور دعا کی : اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت پر قائم رکھ اور اس کی زبان کو حق پر ثابت رکھ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ (خدا کی قسم) اُس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلے کرنے میں ذرہ بھر غلطی کا شائبہ بھی مجھے نہیں ہوا۔‘‘

(9) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی قوت حافظہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
قلتُ : يا رسول اﷲ، إني أسمع منک حديثاً کثيراً فأنساه؟ قال : أبسط، رداء ک، فبسطتُه، قال : فغرف بيديه فيه، ثم قال : ضمه فضممته، فما نسيتُ شيئاً بعده.
بخاري، الصحيح، 1 : 56، کتاب العلم، رقم : 119
مسلم، الصحيح، 4 : 1940، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2491
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 684، ابواب المناقب، رقم : 3835
ابن حبان، الصحيح، 16 : 105، رقم : 7153
ابو يعلٰی، المسند، 11 : 88، رقم : 6219
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 329
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1771
عسقلاني، الاصابه، 7 : 436
ذهبي، تذکرة الحفاظ، 2 : 496
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 12 : 174
’’میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلا؟ میں نے پھیلا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لپ بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا : اسے سینے سے لگا لے۔ میں نے ایسا ہی کیا، پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘

(10) اہالیان مدینہ روزانہ دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برکت حاصل کرتے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إذا صلي الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتي بإناء إلا غمس يده فيها، فربما جاؤه في الغداة الباردة فيغمس يده فيها.
مسلم، الصحيح، 4 : 1812، کتاب الفضائل، رقم : 2324
عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1274
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
نووي، شرح علي صحيح مسلم، 15 : 82
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 171
مناوي، فيض القدير، 5 : 146
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدّامِ مدینہ پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات سرد موسم کی صبح یہ واقعہ ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ ان میں ڈبو دیتے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی خیر و برکت کی تاثیر کے حوالے سے یہ چند واقعات ہم نے محض بطور نمونہ درج کئے ورنہ دستِ شفا کی معجز طرازیوں سے کتبِ احادیث و سیر بھری پڑی ہیں۔

(11) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دے کر اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے۔

1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکروں میں سے ایک لشکر میں تھے، لوگ کفار کے مقابلے سے بھاگ نکلے اور ان بھاگنے والوں میں، میں بھی شامل تھا پھر جب پشیمان ہوئے تو سب نے واپس مدینہ جانے کا مشورہ کیا اور عزمِ مصمم کرلیا کہ اگلے جہاد میں ضرور شریک ہوں گے۔ وہاں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کی تمنا کی کہ خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کردیں۔ اگر ہماری توبہ قبول ہوگئی تو مدینہ میں ٹھہرجائیں گے ورنہ کہیں اور چلے جائیں گے۔ پھر ہم نے بارگاہِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںآکر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم بھاگنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
لا، بل أنتم العَکَّارون. قال : فدنونا فقبلنا يده، فقال : أنا فِئَة المسلمين.
ابوداؤد، السنن، 3 : 46، کتاب الجهاد، رقم : 2647
ابوداؤد، السنن، 4 : 356، کتاب الأدب، رقم : 5223
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 215، ابواب الجهاد، رقم : 1716
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 70، رقم : 5384
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، رقم : 972
قرطبي، الجامع لإحکام القرآن، 7 : 383
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 295
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 541، رقم : 33686
ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 1 : 213
حسيني، البيان والتعريف، 1 : 295، رقم : 786
مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 7 : 437
شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 80
ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 145
’’نہیں، بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ (یہ سن کر ہم خوش ہوگئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں(یعنی ان کا ملجا و ماویٰ ہوں، وہ میرے سوا اور کہاں جائیں گے)۔‘‘
2۔ امِّ ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع بن عامر جو وفدِ عبدالقیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے، سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا :
لما قَدِمنا المدينة فجعلنا نتبادرُ من رواحلِنا، فَنُقَبِّلُ يدَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و رِجلَه.
ابوداؤد، السنن، 4 : 357، کتاب الأدب، رقم : 5225
بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 447، رقم : 1493
طبراني، المعجم الکبير، 5 : 275، رقم : 5313
بيهقي، السنن الکبری، 7 : 102، رقم : 13365
بيهقي، شعب الايمان، 6 : 477، رقم : 8966
عسقلاني، فتح الباري، 8 : 85
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 57
مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 7 : 437
عسقلاني، تلخيص الحبير، 4 : 93، رقم : 1830
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 133، رقم : 418
مزي، تهذيب الکمال، 9 : 266، رقم : 1946
زيلعي، نصب الراية، 4 : 258
عسقلاني، الدراية في تخريج احاديث الهداية، 2 : 232، رقم : 691
شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 304، رقم : 1684
’’جب ہم مدینہ منورہ گئے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دینے لگے۔‘‘