Saturday 12 October 2013

موئے مبارک کے کمالات و برکات

موئے مبارک کے کمالات و برکات



  مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اصلاح بنوارہے تھے اور صحابہ ارد گر بیٹھے نوبت بہ نوبت اپنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر موئے مبارک کوحاصل کرتے تھے۔ ’’المواھب اللدنیہ‘‘ میں ’بخاری ‘و ’مسلم‘ سے منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع میں اصلاح بنوالی تو سر مبارک کے بال ایک ایک دو دو لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔ انتہی ملخصا۔
شارح زرقانیؒ نے لکھا ہے کہ ایک ایک دو دو بال تقسیم کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حاضرین کثرت سے تھے اور اس سے غرض یہ تھی کہ ہمیشہ ان کے پاس وہ برکت باقی رہے اور آئندہ کے لئے یاد گار ہو۔ ان احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ موئے مبارک اس غرض سے حاصل کیا کرتے تھے کہ بطور تبرک ان کو اپنے پاس رکھیں اور اپنے احباب میں تقسیم کریں وہ تبرکات کچھ تو اپنے ورثاء میں تقسیم کئے اور کچھ انہوں نے اپنے احباب کو دےدئے ہونگے اور خود صحابہ جب انکی قدر کرتے تھے تو وہ جن کے پاس گئے وہاں بھی بطور تبرکات رکھے جاتے تھے جیسا کہ اب تک باوجود تیرہ سو سال منقضی ہونے کے تبرکات ہی کی حیثیت سے رکھے جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس موقع میں جہاں اس تعظیم وتوقیر کا منشاء قائم ہورہا تھا حضرتﷺ کا سکوت فرمانا اسی غرض سے تھا کہ اہل اسلام دل کھول کر ان تبرکات سے برکت حاصل کیا کریں، اور بڑی غرض اس سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو عشاق نبیﷺ دیدار جہاں آرا سے محروم ہیں وہ اس متبرک جز کو سر اور آنکھوں پر رکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں اور سر فراز ہوں۔ اب رہی یہ بات کہ بعض جعل سازوں نے بھی بغرض دنیوی کار سازیاں کی ہوں گی جس سے ہر ایک میں اشتباہ واقع ہو گیا تو وہ اصل مقصود کے منافی نہیں اس لئے کہ تعظیم کرنے والا اس کو موئے مبارک سمجھتا ہے اس کے اعتقاد کے مطابق خدائے تعالی اس کو برکت عطا فرمائیگا۔ جیسا کہ اس حدیث شریف سے بھی واضح ہوسکتا ہے۔(انما الاعمال بالنیات)۔

حسبِ عقیدت عطائے برکت


کنزالعمال کی ’’کتاب المواعظ والحکم‘‘ میں یہ حدیث شریف ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ خدائے تعالی کی طرف سے کسی کو فضیلت کی کوئی بات پہنچے اور اس کو ایمان کی راہ سے قبول کر لیا اور اس میں ثواب کی امید رکھی تو حق تعالی اس کووہی ثواب عطا فرمائیگا جو اس کو معلوم ہوا ہے۔ اگرچیکہ وہ خلاف واقع ہو۔ انتھی ملخصا۔
مقصود یہ کہ کسی روایت سے یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں کام میں فضیلت ہے گو اس کا ثبوت باضابطہ نہوا ہو مگر عمل کرنے والا اعتقاد سے اس پر عمل کرلے تو وہی ثواب پائیگا جو اس میں مذکور ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی بزرگ کے پاس موئے مبارک کی زیارت ہوتی ہو اور انہوں نے کہہ دیا کہ یہ موئے مبارک آنحضرتﷺ کا ہے تو اگر فی الواقع وہ حضرت ﷺ کا موئے مبارک نہ بھی ہو تو جو برکت اصلی موئے مبارک کی زیارت میں حاصل ہونے والی ہو وہی برکت اس موئے مبارک کی زیارت میں بھی حاصل ہوگی۔ یہ خدائے تعالی کا ایک فضل ہے جو بطفیل حبیب کریمﷺ آپ کی امت پر ہے واہی تباہی شبہات کی وجہ سے ایسی فضیلت سے محروم رہنا مقتضائے عقل نہیں۔ شیطان آدمی کا دشمن ہے ،وہ ہر گز نہیں چاہتا کہ کوئی فضیلت اور برکت کسی کو حاصل ہو۔ اس وجہ سے وہ ایسے شبہات پیش کرتا ہے جس کو عقل بھی مان لیتی ہے مگر ایمان آدمی کا مستحکم ہو تو دونوں کو جواب دیکر آدمی سعادت دارین حاصل کر سکتا ہے۔ جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ دنیا میں آنحضرتﷺ کے ہزارہا بلکہ لاکھوں لاکھ موئے مبارک موجود ہیں تو اب یہ خیال کرنے کی ضرورت ہی کیا کہ وہ کسی اور کا بال ہے۔ اگر صرف سو پچاس بال کا وجود احادیث سے ثابت ہو تا تو یہ کہنے کی گنجائش ہوتی کہ ہزار ہا موئے مبارک کہاں سے آگئے۔ جس کی زیارتیں ہورہی ہیں۔ میری دانست میں اس وقت موئے مبارک کی اس قدر کثرت نہیں جس قدر صحابہ کے زمانہ میں احادیث سے معلوم ہوتی ہے۔


پرستش قرار دے کر لوگوں کو زیارت سے روکنا


بہر حال موئے مبارک کی زیارت نہ کر کے اس برکت سے محروم رہنا جو صحابہ کے مد نظر تھی قرین مصلحت نہیں۔ بعض حضرات اس کو پرستش قرار دیکر لوگوں کو زیارت سے روکتے ہیں اگر ایسے امور پرستش قرار دئے جائیں تو ہندوؤں کا قول صادق آجائیگا کہ مسلمان بھی مثل دیول کے کعبے کے اطراف پھرتے ہیں اور اس کی پرستش کیا کرتے ہیں مگر ہندوؤں کے قول سے ہم ان امور کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتے جو بہ تعلیم آنحضرتﷺ ثابت ہوئے اور صحابہ ان پر عامل رہے ہیں۔


موئے مبارک کی برکت سے فتح ونصرت


’’تاریخ واقدی‘‘ وغیرہ میں مروی ہے کہ جب شام میں خالد بن الولید رضی اللہ عنہ جبلہ بن ایہم کی قوم کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے ایک روز تھوڑی فوج کے ساتھ مقابل ہوئے اور رومیوں کے بڑے افسر کو مارلیا اس وقت جبلہ نے تمام رومی اور عرب مستنصرہ کو یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا صحابہ کی حالت نہایت نازک ہوگئی رافع ابن عمر طائی نے حضرت خالدؓ سے کہا: آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: سچ کہتے ہو اسکی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی ٹوپی بھول آیا جس میں آنحضرتﷺ کے موئے مبارک ہیں۔ ادھر یہ حالت تھی اور ادھر رات ہی کو آنحضرتﷺ نے ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کو جو افسر فوج تھے خواب میں زجر فرمایا کہ تم اس وقت سوتے پڑے ہو اٹھو اور فواراً خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی مدد کو پہنچو کفار نے ان کو گھیر لیا ہے۔ اگر تم اس وقت جاؤ گے تو وقت پر پہنچ جاؤگے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اسی وقت لشکر میں پکاردئے کہ جلد تیار ہو جاؤ چنانچہ وہاں سے وہ مع فوج یلغار روانہ ہوئے۔ راستے میں دیکھاکہ فوج کے آگے آگے نہایت سرعت سے ایک سوار گھوڑا دوڑائے ہوئے چلاجارہا ہے اسطرح کہ کوئی اس کو پہنچ نہیں سکتا۔ انہوں نے خیال کیا کہ شاید کوئی فرشتہ ہے جو مدد کے لئے جارہا ہے مگر احتیاطاً چند تیز رفتار سواروں کو حکم کیا کہ اس سوار کا حال دریافت کریں۔ جب قریب پہنچے تو پکار کر کہا کہ اے جواں مرد سوار ذرا توقف کر۔ یہ سنتے ہی وہ ٹہر گیا دیکھا تو خالد بن ولید کی بی بی تھیں۔ ان سے حال دریافت کیا کہا کہ اے امیر جب رات میں میں نے سنا کہ آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں سے فرمایا کہ خالد بن الولیدؓ کو دشمن نے گھیر لیاتو میں نے خیال کیا کہ وہ ناکام کبھی نہ ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ آنحضرتﷺ کے موئے مبارک ہیں مگر جب ادھر ادھر دیکھا تو ان کی ٹوپی پر نظر پڑی جس میں موئے مبارک تھے۔ نہایت افسوس سے میں نے ٹوپی لی اور اب چاہتی ہوں کہ کسی طرح اس کو ان تک پہنچادوں۔ ابوعبیدہ نے فرمایا: جلدی سے جاؤ خدا تمہیں برکت دے۔ چنانچہ انہوں نے گھوڑے کو ایڑ کیا اور آگے بڑھ گئیں۔ رافع بن عمر جو خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے وہ کہتے ہیں کہ ہماری جب یہ حالت ہوئی کہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے یکبار گی، تہلیل وتکبیر کی آواز آئی خالد رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کہ یکبارگی روم کے سواروں پر نظر پڑی کہ بدحواس بھاگے چلے آرہے ہیں اور ایک سوار ان کا پیچھا کئے ہوئے ہے خالد رضی اللہ عنہ گھوڑا دوڑ ا کر اس سوار کے قریب پہنچے او رپوچھا کہ اے جواں مرد سوار تو کون ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں تمہاری بی بی ام تمیم ہوں ۔تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں ،جس سےآپ دشمن پر فتح پا یا کرتے ہو تم نے اس کو اسی وجہ سے بھولا تھا کہ یہ مصیبت تم پر آنے والی تھی۔ الغرض وہ ٹوپی انہوں نے ان کو دی اس سے برق خاطف کی طرح نور نمایاں ہوا۔ راوی حدیث قسم کھا کر کہتے ہیں کہ خالدؓنے جب ٹوپی پہن کر کفار پر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پیر اکھڑ گئے اور لشکر اسلام کی فتح ہوگئی۔ انتہی ملخصا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم موئے مبارک میں جو برکت سمجھتے تھے سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا چیز ہے حسی ہے یا معنوی اور بالوں کے اندر رہتی ہے یا سطح بالائی پر کتنی ہی موشگافیاں کیا کیجئے اس کا سمجھنا مشکل تھا۔ اس روایت سے سب مشکلات حل ہوگئیں۔ اور معلوم ہوگیا کہ مشکل سے مشکل کاموں میں آسانی اور جاں گداز واقعات میں امداد غیبی اس برکت کا ایک ادنی کرشمہ ہے۔ ’’شمس التواریخ‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرے سارے فتوحات کے باعث یہی موئے مبارک ہوتے تھے۔ صاحب ’’الاصابۃ فی احوال الصحابہ‘‘ تحریر فرماتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں یہ ٹوپی سر پر نہ تھی جب تک نہیں ملی حضرت خالد رضی اللہ عنہ نہایت الجھن میں رہے ملنے کے بعد اطمینان ہوا۔ اس وقت آپ نے یہ ماجرا بیان فرمایاکہ کل فتوحات کا مدار ان موئے مبارک پر تھا۔ انتہی۔
غرض کہ یہ تبرکات وہ ہیں جو بڑی جاں فشانیوں سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے حاصل کئے اور اس کی حفاظت کی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے لوگ نہ تھے کہ فضول کام میں وہ اہتمام کرتے کہ دینی ضروریات سے بھی زیادہ ہو کیونکہ اس کے حاصل کرنے میں نوبت بہ جدال وقتال پہونچنے کو ہوتی۔ جیسا کہ لفظ حدیث کا دوا یقتلون سے ظاہر ہے بہ خلاف اس کے اور کسی دوسرے کام میں یہاں تک نوبت نہیں پہنچتی تھی۔ دیکھئے صف اول کی فضیلت ثابت ہے مگر جب یہاں تک نوبت پہنچی تو صاف ارشاد ہوگیا کہ صف ثانی میں بھی وہی فضیلت ہے اور اس جھگڑے کو یوں طے فرمادیا۔ بخلاف اس کے یہ حالت روزانہ ملاحظہ فرماتے اور خاموش رہ جاتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ بھی اس اہتمام کو برانہیں سمجھتے تھے کیونکہ حضرت جانتے تھے کہ وہ برکات انکے دارین کی صلاح وفلاح کے باعث ہیں ایسی چیز سے انکو روکنا گویا ان کو سخت ضرر پہنچاناہے اور مقتضائے رحمت نبویﷺ یہ نہ تھا کہ اپنے جاں نثاروں کو کسی قسم کا ضرر پہنچائیں۔ اہل انصاف غور فرماسکتے ہیں کہ صحابہ کا ہم پر کیسا احسان ہے کہ کیسی مصیبت سے انہوں نے وہ تبرکات حاصل کئے اور ان کی حفاظت نسلا بعد نسل کر کے ہم تک پہنچایا مگر افسوس ہے کہ ہمارے زمانے میں ان کی کچھ قدر نہ ہوئی کیونکہ باپ دادا کی کمائی کی آدمی کو وہ قدر نہیں ہوتی جو اپنی کمائی کی ہوتی ہے۔ ’’تاریخ واقدی‘‘ میں لکھا ہے کہ
جنگ یرموک میں ایک روز خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ اپنی شجاعت بیان کرتے ہوئے لشکر کفار کی طرف بڑھے ادھر سے ایک پہلوان نکلا جس کا نام نسطور تھا اور دونوں کا دیر تک سخت مقابلہ ہورہا تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ کا گھوڑا ٹھو کر کھا کر گرا اور خالد رضی اللہ عنہ اس کے سر پر آگئے اور ٹوپی زمین پر گر گئی نسطور موقع پاکر آپ کی پیٹھ پر آگیا اس حالت میں خالد رضی اللہ عنہ نے پکار کر اپنے رفقاء سے کہا کہ میری ٹوپی مجھے دوخدا تم پر رحم کرے ایک شخص آپ کی قوم بنی مخزوم سے تھا دوڑ کر ٹوپی دیدیا آپ نے اسکو پہن کر باندھ لیا اور نسطور پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کردیا۔ لوگوں نے اس واقعے کے بعد پوچھا کہ یہ آپ نے کیسی حرکت کی کہ دشمن قوی پیٹھ پر آپہنچا اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی اس وقت آپ اپنی ٹوپی کی فکر میں تھے جو شاید دو چار آنے کی ہوگی آپ نے کہا وہ معمولی ٹوپی نہیں تھی اس میں سرور کائناتﷺ کے موئے مبارک تھے۔

 


موئے مبارک کی وجہ سے ادنیٰ شیٔ کی غیر معمولی قدر


اب غور کیجئے کہ اس ٹوپی کا خیال اس وقت کہ دشمن کے پورے قابو میں ہیں کس غرض سے ہوگا۔ لوگوں کو جو تعجب تھا کہ ایسی کیا قیمت اس کی ہوگی جو ایسی حالت میں اس کا خیال آیا وہ پہلے ہی آپ نے دفع فرمادیا کہ کوئی قیمتی چیز نہ تھی لیکن اس میں موئے مبارک تھے۔ غرض کہ اس وقت توجہ موئے مبارک کی طرف تھی اور اس کی طرف توجہ کرنے کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس ٹوپی سے صرف استعانت مقصود تھی کہ دشمن پر مدد حاصل ہو۔ اب غور کیجئے کہ ایسے جلیل القدر صحابی جن کی تعریف خود آنحضرت ﷺ نے کی اور سیف من سیوف اللہ فرمایا ان کی یہ حالت ہے کہ ایسے وقت میں کہ دشمن پورا قابو پاچکا ہے اور جانبری کی کچھ توقع نہیں اور دشمن خنجر بکف ہے موئے مبارک سے استمداد کر رہے ہیں اور یہ استمداد زبانی نہ تھی جیسا کہ اکثر شاعری میں استمدادی الفاظ کہدئے جاتے ہیں جن میں بندش مضمون زیادہ مقصود ہوتی ہے۔ بلکہ یہ مدد طلب کرنا عملی طور پر تھا اور زبان حال پکار پکار کرکہتی تھی اے حبیب خداﷺ کے پیارے موئے مبارک یہی وقت مدد ہے دشمن قوی سے بچالیجئے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بفضلہ تعالی اس نازک حالت میں آپ ہی کو غلبہ ہوا ،اس میں شک نہیں کہ وہ خدا سے ضرور مدد مانگ رہے ہوں گے مگر ظاہرانہ انہوں نے کوئی دعا کی نہ ایسے الفاظ کہے جس سے معلوم ہو کہ وہ بال کوئی قابل توجہ نہیں بلکہ برخلاف اسکے صاف کہدیا کہ میرے سارے فتوحات کے باعث یہی موئے مبارک ہیں اہل انصاف اگر ادنی توجہ فرمائیں تو مسئلہ استعانت بالغیر جو آج کل معرکۃ الآراء بناہوا ہے اسی ایک واقعہ سے حل ہوسکتا ہے۔


موئے مبارک کی توہین خسارئہ دنیا و عقبیٰ


جلیل القدر صحابہ کے عمل سے جب یہ ثابت ہوگیا کہ موئے مبارک نہایت واجب التعظیم ہیں تو اس کے مقابلے میں آخری زمانے کے مسلمانوں کا یہ کہناکہ انکی تعظیم بدعت اور بت پرستی ہے، ہر گز قابل اعتبار نہیں ہوسکتا۔ بڑی خرابی اس میں یہ ہے کہ موئے مبارک کی اس میں سخت توہین ہے کیونکہ اسے بت کے ساتھ تشبیہ دی جارہی ہے اور آنحضرت ﷺ کی ادنی چیز کی توہین بھی باعث عذاب ولعنت ہے کیونکہ اس سے آنحضرتﷺ کی اذیت متصور ہے جو باعث لعنت وشقاوت: ابدی ہے۔
حق تعالی فرماتا ہے ﴿انّ الذین یؤذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ ولھم عذاب عظیم﴾(۱)۔ یعنی جو لوگ اللہ اور رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا وآخرت میں خداکی لعنت ہے اور ان پر بڑا عذاب ہوگا۔ اور ’’کنزالعمال ‘‘ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: جس نے میرے ایک بال کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی او ر جس نے مجھے ایذا دی اس نے خدا کو ایذا دی اور اس میں یہ روایت بھی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں آنحضرتﷺ نے اپناایک بال ہاتھ میں لیکر فرمایا کہ جس نے میرے بال کو ایذا دی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے خدا کو ایذا دی اور جس نے خدا کو ایذا دی اس پر تمام آسمان اور زمین کے فرشتوں کی لعنت ہے۔ اور نہ اس کے نوافل قبول ہوں گے اور نہ فرائض۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس پر جنت حرام ہے۔ ظاہراً بال ایک ایسی چیز ہے کہ اس کو کاٹتے ہیں کترتے ہیں مگر اس کو ایذا نہیں ہوتی پھر کیا وجہ ہوگی کہ آنحضرتﷺ نے موئے مبارک کو ہاتھ میں لیکر اس کی ایذا کی تصریح فرمائی یوں تو آسان ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجازیا مبالغہ ہے۔ مگر نکتہ رس طبائع کا خلجان ایسی توجیہات سے 

 دفع نہیں ہوسکتا۔

موئے مبارک سے صرف عقیدت مند ہی مستفید ہوتے ہیں:



موئے مبارک کی زیارت سے ہر کس وناکس مستفید نہیں ہوسکتا اس کے اہل وہ لوگ ہیں جن کو آنحضرتﷺ سے پوری عقیدت اور محبت ہو پھر جس قدر عقیدت ہوگی اسی قدر فوائد ہوں گے۔ مولانا شاہ سید محمد عمر صاحب نے رسالہ’’ استشفاء والتوسل‘‘ میں کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ مولفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ کی عبارت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’میرے والد یعنی شاہ عبدالرحیم صاحبؒ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک بار ایسا سخت بیمار ہوا کہ زندگی کی امید نہ تھی شیخ عبدالعزیز میرے خواب میں آئے اور کہا کہ آنحضرت ﷺ تمہاری عیادت کیلئے تشریف لاتے ہیں شاید اس دروازہ سے تشریف لائیں جدھر تمہارے پاؤں ہیں۔ میں اشارہ کر کے لوگوں سے کہا کہ پلنگ کا رخ پھیردیں چنانچہ پھیردیا گیا ۔ آنحضرت ﷺ تشریف فرماہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اے لڑکے تمہارا کیا حال ہے اس کلام جاں فزا کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ وجد کی سی حالت طاری ہوئی اور اتنا رویا کہ قمیص مبارک حضرتﷺ کا میرے اشکوں سے تر ہوگیا کیونکہ حضرتﷺ مجھے اپنے گود میں لئے ہوئے تشریف رکھتے تھے اس طرح پر کہ ریش مبارک میرے سر پر تھی جب وہ حالت فرو ہوئی تو میرے خیال میں آیا کہ ایک مدت سے مجھے موئے مبارک کی آرزو ہے اگر اس وقت عطا ہوجائے تو کیا اچھا ہوگا اس خیال کے ساتھ ہی ریش مبارک کے دو بال مجھے عطا فرمائے۔ مجھے اس وقت یہ فکر ہوئی کہ یہ موئے مبارک عالم شہادت میں بھی میرے پاس رہیں گے یا نہیں؟ اس خیال کے ساتھ ہی ارشاد ہوا اس عالم میں بھی رہیں گے چنانچہ میں جب بیدار ہوا وہ دونوں موئے مبارک موجود تھے میں نے ان کو محفوظ رکھا اور اسی روز مجھے صحت ہوگئی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ والد نے آخر عمر میں جب تبرکات تقسیم فرمائے مجھے بھی اس میں سے ایک موئے مبارک عطا فرمایا۔ انتہی۔
شاہ صاحب کے والد بزرگوار کس پایہ کے بزرگ ہونگے اور کس درجے کا ان کو عشق موئے مبارک سے ہوگا کہ اس حالت میں بھی ان کو موئے مبارک کا خیال لگا ہواتھا جس کے طفیل میں اس دولت عظمی سے مشرف ہوئے۔ یہاں ایک بہت بڑا معرکۃ الآرا مسئلہ بھی حل ہوگیا وہ یہ کہ خواب میں فقط خیالی صورتیں نظر آتی ہیں جو جسم نہیں ہوسکتیں کیونکہ خیال کا خزانہ دماغ کا ایک حصہ ہے اس میں اجسام کو کہاں گنجائش مگر موئے مبارک جو عطا ہوئے وہ جسم تھے۔ اور شاہ عبدالرحیم صاحب نے بچشم خود دیکھا کہ ریش مبارک سے علحدہ کر کے وہ دئے گئے جس سے ثابت ہے کہ ریش مبارک بھی خیالی نہ تھی بلکہ مجسم تھی پھر ریش مبارک کا حسی تعلق حضرت ﷺ کے جسم اطہر سے تھا جس سے ظاہر ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کی صورت خیالی محسوس نہیں ہوئی بلک جسم مقدس کے ساتھ وہاں تشریف فرما ہوئے تھے گو دوسروں نے نہیں دیکھا جس طرح جبرئیل علیہ السلام مجلس اقدس میں بذات خود آتے تھے اور سوائے حضرتﷺ کے ان کو کوئی نہیں دیکھتا تھا۔ اب اگر آنحضرتﷺ کا بنفس نفیس وہاں تشریف فرما ہونا تسلیم نہ کیا جائے تو شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے والد بزرگوار کی تکذیب ہوئی جاتی ہے ہمارا دل تو اس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی تکذیب کیجائے کیونکہ ایک عالَم نے ان کے علم وفضل اور تقدس کو مان لیا ہے اور ان کو جھوٹ کہنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ اس واقعے سے کوئی ان کا فائدہ متصور نہیں۔اب ان قرآئن اور اسباب سے اگر آنحضرتﷺ کا بہ نفس نفیس مع جسم تشریف لانا ثابت کیا جائے تو معمولی عقلیں گو اس کو نہیں مان سکتیں مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی عقلیں اکثر غلطی کرتی ہیں جیسا کہ ہم نے کتاب العقل میں ثابت کردیا ہے تواب ہمارا فرض ہے کہ ایمانی راہ سے اپنی عقلوں کو مجبور کریں جس سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ حدیث شریف میں جو وارد ہے
﴿من رأنی فی المنام فقد رأنی فان الشیطان لا یتمثل بی﴾
یعنی جس نے خواب میں مجھے دیکھا ،وہ مجھ ہی کو دیکھاکیونکہ شیطان میری صورت میں متمثل نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث پر پورا ایمان آجائیگا اور کوئی خلجان باقی نہ رہیگا۔