Thursday 9 January 2014

بادلوں کو بارآور کرتی ہوئی ہوائیں


قرآن اور سائنس

بادلوں کو بارآور کرتی ہوئی ہوائیں

"اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں پھر آسمان سے پانی برسا کر وہ تمہیں پلاتے ہیں
اور تم اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں ہو ۔"
(سورہ الحجر آیت 22)

یہاں پہ جو عربی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "لوا قح" جو کہ جمع ہے " یقح " کی۔جس کا مطلب ہے "بارآور کرنا"۔یہاں پہ بارآور کرنے کا مطلب سیاق و سباق کے حوالے سے یہ بنتا ہے کہ ہوا بادلوں کو دھکیلتی ہے جس سے ان کی کثافت میں اضافہ ہوتا ہےجس سے بجلی کی چمک پیدا ہوتی ہےاور بارش برستی ہے۔
قرآن کی مزید آیت پہ غور کریں:

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انھیں ملاتا ہے پھر انھیں تہ بہ تہ کر دیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں ان کے درمیان مینہ برستا ہے وہی آسمانوں کی جانب اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے، پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انھیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انھیں ہٹا دے بادلوں ہی سے نکلنے والی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ گویا اب آنکھوں کی روشنی لے چلی۔
(سورہ نور آیت 43)

اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے وہ ابر کو اٹھاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں اس کے اندر سے قطرے نکلتے ہیں اور جنہیں اللہ چاہتا ہے ان بندوں پر وہ پانی برساتا ہے تو وہ خوش خوش ہو جاتے ہیں۔
(سورہ روم آیت 48)

آبیات پہ دستیاب جدید اعدادوشمار اس موضوع پہ قرآنی تشریح اور بیان سے مکمل طور پہ اتفاق کرتے ہیں۔

جاری ہے ان شاء اللہ

**********