Thursday 9 January 2014

آبی چکر


قرآن اور سائنس

آبی چکر

یہ 1580 کی بات ہے جب برنارڈ پالسی نے آج کے آبی چکر کا کے تصور کا پہلی بار ذکر کیا تھا۔اس نے بتایا تھا کہ پانی کس طرح بخارات بن کر سمندروں سے اوپر اٹھتا ہے۔اور پھر ٹھنڈا ہوکے بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔یہ بادل فضا میں بلند ہوکر کثیف شکل اختیار کر کے بارش کی صورت میں زمین پر برستے ہیں۔یہی پانی جھیلوں ندیوں کی صورت میں بہتا ہےاور پھر سمندروں میں لوٹ جاتا ہے۔یوں ایک مسلسل آبی چکر وجود میں آتا ہے۔
ساتویں صدی قبل مسیح میں میلٹس کے تھیلز نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہوائیں سمندروں کے پانی کو اٹھائے پھرتی ہیں۔اور پھر یہی پانی بارش کی شکل میں برس جاتا ہے.
پرانے زمانے میں لوگوں کو یہ علم نہیں تھا کہ زیرزمین پانی کہاں سے آتا ہے۔ان کا خیال تھا کہ سمندروں کا پانی ہواؤں کے زیر اثر زمین میں دھنس جاتا ہے۔ان کا یہ خیال بھی تھا کہ یہی پانی کسی خفیہ راستے سے یا گہری خلیج سے سمندروں میں پہنچ جاتا تھا۔یہ راستہ سمندروں سے جڑاہوا تھا اوراسے افلاطون کے زمانے میں ٹارٹرس کہتے تھے۔اٹھارہویں صدی کے عظیم مفکر ڈیکارٹس نے بھی اسی نظریے سے اتفاق کیا تھا۔پھر انیسویں صدی آئی اور اب تک ارسطو کا نظریہ رائج تھا۔اس نظریے کے مطابق پانی ٹھنڈی کوہسانی غاروں میں کثیف شکل اختیار کر لیتا تھا۔پھر یہ زیر زمین جھیلوں میں چلاجاتا تھا۔جہاں سے چشمے پھوٹتے تھے۔

۔آج ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ بارش کا وہ پانی جو دراڑوں کے زریعے زیرزمین چلاجاتا ہے وہ زیرزمین پانی کا سبب بنتا ہے۔
قرآن کی آیات دیکھیں :

"کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے پھر اسی کے ذریعے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ میں دیکھتے ہیں پھر انہیں ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اس میں عقلمندوں کیلئے بہت زیادہ نصیحت ہے۔"
(سورہ الزمر آیت 21)

ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں اور ہم اس کے لے جانے پر یقیناً قادر ہیں۔
(سورہ المومنون آیت 18)

آج سے 1400 سال پہلے کی کوئی کتاب آبی چکر کی ایسی صحیح صحیح تفصیل پیش نہیں کرتی۔
کیا اسے محض اتفاق کہا جاسکتا ہے؟ ہرگز ہرگز نہیں بلکہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کے خالق نے اپنے اس قرآن میں اپنی نشانیاں کھول کھول کے بیان کردی ہیں اگر کوئی ہدایت پانے والا ہو تو۔