Thursday 9 January 2014

ایٹم قابل تقسیم ہے


قرآن اور سائنس


ایٹم قابل تقسیم ہے

زمانہ قدیم میں "نظریہ ایٹامزم" کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔اسے دوردور تک پذیرائی ملی تھی۔یہ نظریہ یونانیوں نے دیا تھا بالخصوص ایک یونانی سکالر ڈیموکریٹس نےجو آج سے 230 صدیاں قبل گزرا ہے۔ڈیموکریٹس اور اس کے بعد آنے والی سائنسدانوں کا خیال تھا کہ مادی کی سب سے چھوٹی اکائی ایٹم یا ذرے کا مطلب بھی زیادہ تر ایٹم ہی لیا جاتا ہے۔دور حاضر کی جدید سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ ایٹم کے بھی ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔بیسویں صدی میں یہ بات سامنے آئی کہ ایٹم کو بھی مزید تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ آج سے 1400 سال قبل یہ نظریہ عربوں کو بھی عجیب ہی لگتا۔ذرہ آخری حد ہے اس کے مزید ٹکڑے نہیں ہوسکتے یہ نظریہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔مگر قرآن نے اس نظریہ کو 1400 سال قبل ہی مسترد کر دیا تھا :
"کفار کہتے ہیں ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ آپ کہہ دیجئے! مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے وہ یقیناً تم پر آئے گی ۔ اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہرچیز کھلی کتاب میں موجود ہے"
(سورہ سبأ آیت نمبر 3)
اور آپ کسی حال میں ہوں آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے۔
(سورہ یونس آیت 61)
اس آیت میں اللہ کے عالم الغیب ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے۔وہ تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے چھپی ہوئی کا بھی اور جو ظاہر ہیں ان کا بھی۔مزید بتایا گیا کہ اللہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزکا بھی علم رکھتا ہے۔اسے ذرےذرے کا علم ہے اور ذرے سے چھوٹی شے کا بھی۔اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ ذرے سے بھی چھوٹی چیز ہوسکتی ہے۔