Friday 11 October 2013

رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم مبارک کا اعجاز

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینۂ مبارک
شیر ربانی میاں شیر محمد صاحب شرقپوری ؒ نے فرمایا ۔ دنیا میں ایک گروہ ہے جو کہ تین سو ہے ایک تین ہوتے ہیں ایک چالیس ہوتے ہیں ایک تین ہوتے ہیں اور ایک ایک ہوتا ہے اور اس ایک کی روحانیت سے بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم مبارک ستر درجہ لطیف ہے یعنی غوث کی روحانیت سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسد عنصری ستر درجہ لطیف تر ہے ۔ (انقلاب حقیقت صفحہ 26 )
سبحان اللہ جب سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم مبارک کی یہ شان ہے تو ان کی روحانیت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے ۔مندرجہ ذیل چند احادیث مبارکہ اور اقوال اکابر تحریر کیے جاتے ہیں جس سے ہر ایماندار انداذہ لگا سکتا ہے کہ اس نور مجسم صلہ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم اطہر کی کیا شان ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینۂ مبارک چہرۂ انور پر موتیوں کی طرح معلوم ہوتا، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
  کان عرق رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم فی وجهه مثل اللؤلؤ اطيب ريحا من المسک الاذ فر
۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینۂ مبارک آپ کے چہر ۂ انور پر آبدار موتیوں کی طرح ہوتااور اس کی مہک مشک سے زیادہ خوشبودار ہوتی۔(سبل الھدی ج 2ص85
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینۂ مبارک کی خوشبو مشک وعنبر اور تمام خشبوؤں سے زیادہ خوشبودار ہوتی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 
کان ريح عرق رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم ريح المسک بابی وامی لم ارقبله ولابعده مثله۔ 
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینۂ مبارک کی خوشبو مشک کی خوشبو ہے، میرے ماں باپ آپ پر فداہوں !میں نے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ آپ کے بعد۔ (سبل الھدی ج 2ص85
صحیح مسلم شریف ج2ص257اورجامع ترمذی شریف ج 2ص21 میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: ولاشممت مسکا قط ولاعطرا کان اطيب من عرق رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم۔  
میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینۂ مبارک سے زیادہ خوشبودار نہ کوئی مشک سونگھا اور نہ کوئی عطر۔  سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے گھر میں جاتے اور ان کے بچھونے پر سو رہتے، اور وہ گھر میں نہیں ہوتیں تھیں ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے بچھونے پر سو رہے۔ لوگوں نے انہیں بلا کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر سو رہے ہیں، یہ سن کر وہ آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ چمڑے کے بچھونے پر جمع ہو گیا ہے۔ ام سلیم نے اپنا ڈبہ کھولا اور یہ پسینہ پونچھ پونچھ کر شیشوں میں بھرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ اے ام سلیم ! کیا کرتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اپنے بچوں کے لئے برکت کی امید رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے صاحبزاد ے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے وصال مبارک کے وقت وصیت فرمائی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینۂ مبارک انکے کفن کی خوشبو میں استعمال کیا جائے ۔(حاشیۂ زجاجۃ المصابیح ج5ص33بحوالہ مرقات 
۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دعا میں اس قدر بلند ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بغلوں کی سفیدی نظر آ رہی تھی۔ (بخاری و مسلم)
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بغل مبارک کا رنگ متغیر نہیں تھا حالانکہ دیگر آدمیوں کی بغلوں کا رنگ متغیر ہوتا ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں میں بال تھے، صاف اور خوشبودار تھیں۔ (خصائص الکبرٰی)
دارمی نے بنی قریش کے ایک ثقہ سے روایت کیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ماغر بن مالک کو اس کے اقرار بالزنا پر سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا تو اس کے بدن پر پتھر برستے دیکھ کر مجھے ڈر کے مارے استادہ رہنے کی طاقت نہ رہی۔ گھبرا کر قریب تھا کہ میں گر پڑتا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ لگا لیا، وہ ایسا وقت تھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کا پسینہ مجھ پر ٹپک رہا تھا اور مجھے اُس سے کستوری کی خوشبو آئی تھی خوشبو سے میرا دل قوی رہا۔

یہ  متفق عیلہ حقیقت ہے کہ عوام کا پسینہ بد بودار ہوتا ہے مگر آنحضرت ﷺ کا پسینہ مبارک دنیا کی اعلیٰ ترین خوشبوں کو شرماتا تھا۔
 
آنحضرتﷺ بے شک انسان تھے لیکن آپ ﷺ کو جن خصائص سے اللہ نے نوازا تھا ان خصائص کا انکار کیوں کیا جائے؟ ےاقوت بھی پتھر ہے،حجرا سود جنت سے آیا ہوا ہے۔ حضرت انبیاءعلیہم السلام کے اجسام مطہرہ مقدسہ میں اللہ نے جنت کے خوائص رکھ دئیے ہیں اسی لیے ان اجسام مطہرہ کو مٹی پر حرام کردیا گیاہے (کہ ان کو کھائے)، ان اجسام مطہرہ کا پسینہ مثل جنت کے پسینہ کے خشبودار بنا دیا گیا۔ اسی طرح دوسرے فضلات بھی اگر خصوصیت طہارت رکھتے ہوں تو اس میں کیا اشکال ہے ۔۔۔۔۔۔ (ماخوذاز تجلیاتِ صفدر ج1 ص481)