Saturday 12 October 2013

عالم کے تمام اشیاء کی حیات، اور انکا حضور اکرم ﷺ کو پہچاننا

عالم کے تمام اشیاء کی حیات، اور انکا حضور اکرم ﷺ کو پہچاننا:

میری دانست میں آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد خاص حقیقت شناسوں کے لحاظ سے فرمایا جو صحابہ تھے کیونکہ فیضان صحبت سے وہ سب حضرات حقیقت شناس ہوگئے تھے وہ جانتے تھے، کہ عالم میں ہرچیز زندہ اور ذی فہم ہے کیونکہ حق تعالی فرماتا ہے۔ ﴿وان من شیٔ الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم﴾(۲)۔یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو خدائے تعالی کی تسبیح نہیں کرتی لیکن ان کی تسبیح کو تم نہیں سمجھتے۔ یہ ظاہر ہے کہ تسبیح اور تنزیہ کرنے والے کو جب تک اس امر کا ادراک نہ ہو کہ اس کا ایک خالق ہے اور اس کے جس قدر اوصاف ہیں سب کمالات ہیں اور سب عیبوں سے وہ منزہ ہے، تسبیح کرنا صادق نہیں آتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تمام عالم کے اشیاء اچھی چیز کو، اچھی اور بری چیز کو بری سمجھتے ہیں جو تنزیہ کا منشا ہے۔ اگر چہ اس آیۃ شریفہ میں بھی یہ احتمال تھا کہ ان کا تسبیح کرنا بزبان حال ہوگا مگر چونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس امر کا مشاہدہ تھا کہ جیسے انسان کے ادراک ہیں ان کے بھی ادراکات ہیں اسوجہ سے ان کو اس آیۃ شریفہ میں تاویل کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ہمیشہ وہ دیکھا کرتے تھے کہ درخت وغیرہ آنحضرت ﷺ پر سلام کیا کرتے تھے۔ ’’کنزالعمال‘‘ کی ’’کتاب الفضائل‘‘ میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ مکان سے نکلا ،دیکھا کہ حضرت ﷺ کا جس درخت اور پتھر پر گذر ہوتا وہ حضرت ﷺ پر سلام کرتا تھا۔ اور مجمع عام میں ستون کا رونا اور آنحضرت ﷺ سے اس کی گفت وشنود اور کنکروں کا بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھنا وغیرہ صدہا امور جو خصائص کبری وغیرہ کتب حدیث میں مذکور ہیں ہمیشہ پیش نظر تھے۔ غرض کہ کثرت مشاہدات سے ان کو جمادات وغیرہ کے ادراکات میں ذرا بھی شک نہ تھا اس وجہ سے آنحضرت ﷺ نے موئے مبارک کو ہاتھ میں لیکر فرمایا: میرے بال کو جو ایذا دے اسکو یہ سزائیں ہیں اور انہوں نے یقین کرلیا کہ بیشک موئے مبارک کو بعض امور سے اذیت ہوا کرتی ہے اس لئے انہوں نے اسکی تعظیم وتوقیر کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اسکے روبرو مؤدب ہوجاتے اور اسکی نہایت تعظیم وتوقیر کرتے۔ بہر حال جب موئے مبارک کی نسبت کسی قسم کی گستاخی کی جائے تو ان کو اس سے اذیت ہوتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ان کو کان توہیں بھی نہیں پھر سننے کی کیا صورت تو اہل ایمان کے نزدیک یہ اعتراض قابل توجہ نہیں اس لئے کہ سماعت کو کان سے کوئی ذاتی تعلق نہیں بلکہ عطائی تعلق ہے ۔چنانچہ ہم نے مقاصد الاسلام کے کسی حصہ میں اس سے متعلق بحث کی ہے کہ خدا تعالی نے جس طرح کان سے سماعت کو متعلق فرمایا جس چیز سے چاہے متعلق فرمادے سکتا ہے۔ مشکوۃ شریف کے باب الاذان میں یہ روایت ہے جو کتب صحاح سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جب مؤذن اذان کہتاہے تو جہاں تک اسکی آواز پہنچتی ہے وہاں تک کل اشیاء خواہ وہ خشک ہوں یا تر سب قیامت میں اس کے حق میں گواہی دیں گے کہ اس شخص نے اذان کہی تھی۔ دیکھئے درخت پتھر ڈھیلے وغیرہ اگر مؤذن کی آواز سنتے نہ ہوں تو گواہی دینے کی صورت سے یہ بھی ثابت ہے کہ انکو اس کا علم وادراک بھی ہے۔ ’’کنزالعمال‘‘ کی کتاب الحج میں ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ سے یہ حدیث منقول ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص تلبیہ کہتا ہے۔ یعنی لبیک اللھم لبیک الخ تو جتنے پتھر ڈھیلے اور درخت اس کے داہنے اور بائیں بازو ہیں سب تلبیہ کہتے ہیں۔اس سے سماعت ان اشیاء کی ثابت ہے۔ اس کے سوا کثرت سے احادیث موجودہیں جن سے ثابت ہے کہ سوائے انسان اور حیوانات کے نباتات اور جمادات بھی سنتے اور سمجھتے ہیں۔ غرض کہ موئے مبارک کا سننا اور انکے علمی ادراکات ثابت ہیں تو توہین سے ان کو ضرور اذیت ہوتی ہوگی اور یہ ایذا رسانی ان سزاوں کا باعث ہوتی ہے جس کی تصریح حضرتﷺ نے فرمادی جو ابھی مذکور ہوئیں۔

 

جمادات و نباتات پر آپﷺ کا اختیار و تصرف:

کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں یہ حدیث شریف ہے کہ اسیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ حج کو جارہے تھے ایک مقام میں مجھ سے فرمایا کہ دیکھو کوئی جگہ ایسی ہے جہاں حاجت بشری سے فراغت حاصل کی جائے وہ کہتے ہیں کہ میں بہت دور نکل گیا مگر جدھر دیکھا آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے کوئی جگہ ایسی نہیں دیکھی جہاں تخلیہ ہوسکے جب میں نے یہ حال عرض کیا فرمایا کہ کہیں کھجور کے چھوٹے چھوٹے درخت بھی نظر آتے ہیں جن کے بازو میں پتھروں کا ڈھیر ہو میں نے عرض کیا جی ہاں، یہ تو دیکھا ہے فرمایا: جاؤ اور ان درختوں سے کہدو کہ رسول اللہﷺ تم کو حکم کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملجاؤ اور یہی بات پتھروں سے بھی کہدو، وہ کہتے ہیں خدا کی قسم میں نے جب درختوں کو حضرتﷺ کا حکم پہنچادیا دیکھا کہ ان کی جڑیں اور مٹی حرکت کرنے لگی اور وہ تھوڑے عرصے میں ایسے مل گئے کہ ان میں بالکل فاصلہ نہ رہا او رجب پتھروں کو حکم پہنچایا تو پتھروں کو دیکھا کہ ایک کے اوپر ایک چڑھنے لگے یہاں تک کہ ایک دیوار بن گئی میں نے حضرت ﷺ کو اس کی خبر دی فرمایا ڈولچی میں پانی بھر لو میں پانی لیکر حضرت ﷺ کے ساتھ ہوگیا اور پاء خانے میں پانی رکھ کر میں دور ہٹ گیا۔ حضرت ﷺ جب حاجت سے فارغ ہوئے اور خیمہ مبارک میں تشریف لائے فرمایا کہ ان درختوں اور پتھروں سے کہدو کہ اپنی اپنی جگہ چلے جائیں چنانچہ بمجرد حکم پہنچانے کے ہر درخت اور پتھر اپنے اپنے مقام سابق پر آگیا انتہی ملخصا۔

اختیار و معجزہ میں لطیف فرق:

اس سے ظاہر ہے کہ نباتات وجمادات بات سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ یہ معجزہ تھا اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ کل نباتات وجمادات سنتے اور سمجھتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس لحاظ سے اس کو معجزہ کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ مگر معجزے کی تعریف اس پرپوری طور سے صادق نہیں آتی اسلئے کہ معجزے کی ضرورت تو وہاں ہوتی ہے جہاں کفار کے ساتھ مقابلہ ہو اور بر سر مقابلہ دعوائے نبوت کیا جائے اور دلیل میں ایسا امر پیش کیا جائے کہ کفار میں سے کوئی وہ کام نہ کرسکے تاکہ حجت قائم ہوجائے اور یہاں ایسی کوئی بات نہ تھی۔ حضرتﷺ کو قضائے حاجت کی ضرورت تھی اور کوئی مقام ایسا نہ تھا کہ وہاں اس سے فارغ ہوں۔ پائخانہ تیار کرنیکے لئے پتھروں اور درختوں پر حکم صادر فرمایادیا کہ فوراً تیار کردیں اور انہوں نے بطیب خاطر فرمانبرداری کی۔ نہ وہاں کوئی کافر تھا نہ کسی کو یہ حکومت بتلانے کی ضرورت تھی اگر ایسا ہوتا تو اعلان کر دیا جاتاکہ دیکھو ہم درختوں اور پتھروں سے یوں کام لیتے ہیں اور وہاں کل رفقائے سفر کا جو ہزارہا تھے اژدہام ہوجاتا دراصل آنحضرتﷺ پر یہ امر منکشف تھا کہ تمام ذرات عالم سمجھدار ہیں۔ اگر چہ ہر کس ناکس کی بات پر وہ توجہ نہیں کرتے مگر جس کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ اس کا حکم نافذ ہے ممکن نہیں کہ اس کے حکم سے انحراف کریں اسلئے آپﷺ نے ایک غیر معروف شخص کی زبانی حکم بھیج دیا اور اس کی تعمیل فوراً انہوں نے کردی ۔اس حکمرانی کو نبوت سے تعلق نہیں بلکہ اس کا منشاء وہ ہے جوآیت شریف میں ہے وسخر لکم مافی السموات وما فی الارض جمیعا (۱) الخ یعنی جو چیز زمین اور آسمان میں ہے ان سب کو تمہارے لئے مسخر کردیا۔ چنانچہ اولیاء اللہ سے بھی اس قسم کے خوارق عادات صادر ہوتے ہیں اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ من کان للہ کان اللہ لہ یعنی جو اللہ کا ہوگیا اللہ اس کا ہوگیا اور من لہ المولی فلہ الکل اور اللہ جس کا ہوگیا تو تمام عالم اس کا ہے۔
یہ امر مشاہد ہے کہ جو لوگ سلاطین کے مقرب ہوتے ہیں ان کو سب مانتے ہیں اور ہر جگہ ان کی آوبھگت ہوتی ہے پھر جس قدر تقرب زائد ہوگا اسی قدر آؤبھگت زیادہ ہوگی یہ تو عام بات تھی۔ اب آنحضرت ﷺ کی خصوصیات پر نظر ڈالئے۔ حضرت ﷺ اللہ تعالی کے نور سے پیدا ہوئے اور تمام عالم حضرتﷺ کے نور سے پیدا ہوا اور حق تعالی فرماتا ہے اگر آپ نہ ہوتے تو افلاک کو بھی پیدا نہ کرتا اور اس کے سوا بہت ساری خصوصیات ہیں جن کا حال کسی قدر ہم نے ’’انوار احمدی‘‘ میں لکھا ہے۔ اب کہئے کہ کونسی چیز ایسی ہوسکتی ہے کہ حضرتﷺ کے حال سے واقف ہونے کے بعد سرتابی کرسکے؟ ایسے امور کا علم صرف جن وانس کو نہیں دیا گیا اس لئے کہ یہ معرض امتحان میں ہیں۔ عقل اور شہوت ان کو دی گئیں اور غیبی امور پر اطلاع بھی دی گئی تاکہ عقل کی رہبری سے پہلی منزل طے کرلیں، یعنی توحید اور نبوت کی ضرورت ثابت کرلیں بخلاف دوسری اشیاء کے کہ ان سے کوئی امتحان متعلق نہیں اسلئے ابتداء ہی میں ان کو ان امور کا علم دیا گیا جو الوہیت در عبودیت سے متعلق ہے۔ غرضکہ کل عالم کی اشیاء آنحضرتﷺ کی سیادت کو تسلیم کئے ہوئے ہیں، چنانچہ اس پر قرینہ یہ روایت ہے جس کو ہم نے انوار احمدی میں نقل کی ہے کہ جب آنحضرتﷺ اس عالم میں تشریف فرماہوئے بمجرد ولادت مبارک ایک ابر نمودار ہوا اور آپ کو لیکر تمام بروبحر میں اور خدا جانے کہاں کہاں لے گیا جس سے مقصود صاف ظاہر ہے کہ جو اشیاء اپنے مقام سے حرکت کر کے حاضر خدمت نہیں ہوسکتے تھے وہ اپنے آقائے نامدارﷺ کے جمال جہاں آرا سے مشرف ہوجائیں اور معلوم ہوجائے کہ ایک زمانے سے جن کی آمد آمد کا شہرہ اور انتظار تھا وہ تشریف فرماہوچکے۔ جس سے ظاہر ہے کہ تمام ذرات عالم کو اس عالم میں انکی تشریف فرمائی کا حال معلوم ہوگیا تھا۔
جب ان درختوں اور پتھروں کو یہ خبر پہنچائی گئی کہ بہ نفس نفیس وہاں تشریف فرماہوں گے، تو اس نعمت غیر مترقبہ کے حصول پر ان کی کیا حالت ہوئی ہوگی، مارے خوشی کے اپنے میں پھولے نہ سماتے ہوں گے۔ ابھی آپ نے دیکھ لیا کہ حضرت ﷺ کی مفارقت سے ستون مسجد کو کس قدر غم کا صدمہ تھا۔ اسی طرح حضرت ﷺ کے وصال کی مسرت کا اثر ان پر نمایاں ہوا کہ اس مژدئہ جاں فزا کے سنتے ہی فورا حرکت کر کے تعمیل حکم میں مشغول ہوگئے۔
الحاصل۔ جمادات کا ادراک اور ان کا غم وشادی ان روایات سے ثابت ہے اسی طرح ان کو ایذا پہنچنی بھی ثابت ہے۔ چنانچہ کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں یہ روایت ہے کہ فرمایا نبی کریمﷺ نے کہ جب کوئی بندہ مسجد میں تھوکنے کا ارادہ کرتا ہے تو مسجد کے ستون مضطرب ہوجاتے ہیں اور مسجد ایسی سکڑجاتی ہے جیسے چمڑا آگ میں سکڑتا ہے۔ انتہی ملخصا
یہ امر شاہد ہے کہ کوئی مکروہ چیز کسی پر ڈالی جائی تو وہ اس سے بچنے کی غرض سے سمٹ جاتا ہے منشا اس کا یہ ہے کہ اس مکروہ چیز کے جسم پر لگنے سے روحانی اذیت ہوتی ہے اور اس میں ایک دوسری روایت ہے کہ ریٹ کی وجہ سے بھی مسجد کا یہی حال ہوتا ہے یہ بات ظاہر بینوں کے سمجھ میں آنے کے قابل نہیں ہے کہ مسجد کے ستونوں کا اضطراب اور اس کا سمٹنا کیونکر ہوگا ۔فی الحقیقت یہ امور محسوسات سے خارج ہیں مگر ایمانی دنیا میں ان امور کا وجود گو محسوس نہ ہو مگر قابل تصدیق ہے۔ جس طرح فلسفی دنیا میں تمام عالم کا اجزائے دیمقراطیسیہسے مرکب ہونا مسلم ہے اور اس قابل سمجھا گیا ہے کہ اس میں کلام کرنے کی ضرورت ہی نہیں حالانکہ اب تک کسی نے نہ اجزائے دیمقراطیسیہ کو دیکھا نہ انکے نظر آنے کی امید ہے نہ اسکی صلاحیت کیونکہ پتھر پانی ہو ا اور روشنی انہی اجزاء سے مرکب ہیں پتھر کے کتنے ہی باریک اجزا نکالے جائیں ہر جز پتھر کی ماہیت میں شریک ہوگا اور پانی کے کتنے باریک اجزاء کئے جائیں ہر جز پر پانی کا اطلاق ہوگا روشنی کا کوئی جزء ایسا نہ ہوگا کہ روشنی کی ماہیت اس میں پائی نہ جائے۔ اجزائے دیمقراطیسیہ تو ایسے سخت ہیں کہ ٹوٹ پھوٹ نہیں سکتے چاہیے کہ ان کے مجموعے میں بھی یہی بات ہو مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہوا کو ہاوند میں کوٹیں تو ذرا بھی سختی نہیں معلوم ہوتی حالانکہ کروڑہا سخت اجزاء اس میں موجود رہتے ہیں، جب فلسفی دنیا میں ان غیر محسوس اجزاء کو بغیر اس کے کہ کوئی قرینہ ان کے وجود پر قائم ہو مان لیا گیا تو ایمانی دنیا میں جمادات کی غیر محسوس حرکت مان لینے میں کونسی چیز مانع ہے فرق ہے تو اسی قدر ہے کہ وہاں فلاسفہ کا قول ہے اور یہاں خدا اور رسولﷺ کا اگر اہل اسلام فلاسفہ کے قول کے برابر بھی خدا اور رسول ﷺکے قول کی وقعت نہ کریں تو پھر دعویٰ اسلام سے فائدہ ہی کیا۔
ان تمام روایات اور پھر دوسری روایت سے ثابت ہے کہ جمادات اور نباتات کو ادراک ہے اور ان کو اذیت بھی ہوا کرتی ہے۔ اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے بال کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی خدائے تعالی کو ایذا دی۔ ’’مشکوۃ شریف‘‘ کے ’’باب الطب والرقی‘‘ میں بخاری شریف سے ایک روایت منقول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت ثمان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری زوجہ نے مجھکو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالہ پانی کا دیکر بھیجا اور ان کی عادت تھی کہ جب کسی کو نظر لگتی یا کوئی مرض ہوتا تو ایک بڑے برتن میں پانی دیکر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتیں کیونکہ ان کے پاس آنحضرتﷺ کا موئے مبارک ایک چاندی کی نلی میں رکھا ہوا تھا وقت ضرورت اس کو نکال کر پانی میں ہلادیتیں اور مریض وہ پانی پی لیتا۔ بخاری شریف کی روایت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ صحابہ علیہم الرضوان موئے مبارک تبرکاً اپنے مکان میں رکھتے اور عموماً لوگ اس کی برکت حاصل کرتے اور امراض سے شفاء پاتے تھے۔خصائص کبریٰ میں سنان بن طلق یمانی سے روایت ہے کہ وہ وفد بنی حنیفہ میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرتﷺ سرمبارک دھورہے تھے فرمایا: تم بھی اپناسر دھولو۔ چنانچہ حضرتﷺ کے بچے ہوئے پانی سے میں نے اپنا سردھویا اور اسلام لایا۔ پھر حضرتﷺ نے مجھے کچھ لکھ دیا۔ جاتے وقت میں نے عرض کی کہ قمیص مبارک کا اگر ایک ٹکڑا عنایت ہو تو میں اس سے انست حاصل کروں گا۔ حضرتﷺ نے مجھے عنایت فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ کپڑا ان کے پاس تھا جب کوئی بیمار بغرض شفا آتا تو اسے دھوکر اس کو پانی پلایا کرتے تھے۔