Friday 22 June 2012

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں : افتخار عارف

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں : افتخار عارف

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مد د کے لیئے پکارا نہیں
جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں
ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں