Tuesday 19 June 2012

جس گھر میں کتا ہو‘ وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا

بائولے پن کی بیماری کتے کے علاوہ گیدڑ‘ بھیڑیے‘ لومڑی‘ لگڑبگڑ اور دوسرے جانوروں کے کاٹنے سے بھی ہوجاتی ہے اب تک یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ بائولہ جانور جب تندرست جانور کو کاٹتا ہے تو کچھ عرصے بعد اس تندرست جانور کو بھی بائولہ پن ہوجاتا ہے لیکن امریکہ میں ماہرین نے تجربات سے معلوم کیا کہ چند جانور ایسے بھی ہیں جو خود تو بائولے نہیں ہوتے لیکن اس بیماری کے جراثیم ان کے جسم میں موجود رہتے ہیں اس لیے وہ خود بیمار ہوئے بغیر دوسروں کو بائولہ کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں چمگادڑ کا نام سرفہرست ہے۔
پاگل کتا جب کاٹتا ہے‘ تو کچھ عرصے بعد (یہ عرصہ مہینوں اور برسوں پر محیط ہوسکتا ہے) مریض کو اعصابی تشنج‘ مرگی کی طرح کے دورے اور منہ سے جھاگ نکلنے کی تکالیف شروع ہوتی ہیں۔
حلق میں فالج کے باعث پانی پینا ممکن نہیں رہتا۔ تشنجی دوروں کی وجہ سے اکثر اوقات پسلیاں یا ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے زبان‘ دانتوں میں آکر کٹ سکتی ہے۔ دوروں کے درمیانی وقفے میں مریض کی حالت اچھی بھلی ہوتی ہے۔
بائولہ پن‘ سرطان اور تپ دق سے زیادہ مہلک ہے۔ اس بیماری کا علاج بیماری کے حملے سے پہلے ہوسکتا ہے۔ علامات ظاہر ہوجائیں تو پھر مریض کی موت پانچ روز کے اندر اندر واقع ہوجاتی ہے جبکہ کتوں میں زندگی کا عرصہ دس روز تک طویل ہوسکتا ہے۔
بھاٹی دروازے میں کسی کتے نے ایک دنبے کو کاٹ لیا یہ دنبہ پہلے ہی روز مرگیا۔ راولپنڈی میں ایک بھینس‘ بائولے پن کے بعد صرف سات روز تک زندہ رہ سکی۔اب تک جو معلومات حاصل ہوئیں‘ ان کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے سفارش کی ہے کہ کتا کاٹے کے زخم کو پانچ منٹ تک صابن اور پانی سے اچھی طرح دھویا جائے۔ان تلخ حقیقتوں میں گھرا ہوا جب میں خدا کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکیمانہ قول پر غور کرتا ہوں تو اسلام کی عظمت پر میرا ایمان ناقابل تسخیر بن جاتا ہے۔ ”جس گھر میں کتا ہو‘ وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا“