Monday 2 July 2012

غزل کیا ہے؟؟؟؟

غزل عربی سے لی گی ہیں اس کا مطلب عورت یا عورت سے باتیں کرنے کو غزل کہتے ہیں ۔ ہرن کو بھی غزل کہتا ہے اور اس کی درد بھری آواز کو بھی غزل کہتےہیں ۔غزل کا ہر شعر اپنی ذات مین مکمل اور مختصر ہوتا ہے۔ اس کو وضاحت کے لیے دوسرے شعروں کی ضرورت نہیں ہوتی (جیسا کے نظم میں ہوتی ہیں۔)
غزل کا ایک شعر حسن و عشق پر دوسرا فلسفہ پر اور اسی طرح تیسرا کسی بھی موضوع پر ہو سکتا ہے۔ غزل میں تمام شعروں میں خیال اور یکسانیت کی ضرورت نہیں ہوتی غزل میں مطلع ۔ مقطع ۔ قافیہ اور ردیف ہوتے ہیں
اور ہاں اگر کسی غزل کے شعروں میں آپس میں ربط ہو تو اس غزل کو غزلِ مسلسل کہا جاتا ہے

غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا تھا۔ وہ ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے۔ مثلاً قلی قطب شاہ، نصرتی ، غواصی ، ملاوجہی۔ لیکن ولی نے پہلی بار غزل میں تہذیبی قدروں کو سمویا ۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ایہام گو شعراءآتے ہیں۔ جنہوں نے بھی فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب و روایات سے قریب کیا۔ایہام گوئی کے کی بعد اصلاح زبان اور فکر کی تحریک شروع ہوئی جو مظہر جانِ جاناں نے شروع کی انہوں نے غزل میں فارسیت کو رواج دیا۔ لیکن وہ مکمل طور پر ہندیت کو غزل سے نکال نہیں سکے۔لہٰذا اس کے بعدمیر تقی میر او ر سودا کا دور ہمارے سامنے آتا ہے اس میں ہمیں نئی تہذیب اور اسلوب کا سراغ ملتا ہے۔ اس میں ہمیں وہ کلچر نظر آتا ہے جو ہندی ایرانی کلچر ہے ۔وہ اسلوب ہے جس میں فارسی کا غلبہ تو ہے لیکن اندرونی طور پر ھندی ڈکشن کے اثرات ہیں۔میر اورسودا کا دور غزل کے عہد زریں کا دور ہے ۔ جس میں مکمل طور پر کلاسیکی پیمانوں کی پیروی کی گئی ۔
لکھنو میں غزل کا پہلا دور مصحفی ، انشاء، رنگین اور جرات کا ہے یہاں پہلی دفعہ کلاسیکی موضوعات پر ضرب پڑتی ہے اور اسلوب اور موضوع کے حوالے سے بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں ۔ لکھنو کا دوسرا دور جو آتش اور ناسخ کا دور ہے اس میں پچھلے دور کے اقدار کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں سے محبوب اور اس کی شخصیت تبدیل ہونی شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے جو پاکیزگی کا تصور تھا اس میں دراڑیں پڑتی ہیں
اس کے بعد غالب کا دو رآتا جس پر لکھنو کا اثر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن فکری حوالے سے اس دور میں بڑی تبدیلی نظرآتی ہے۔ یہاں سے ایسی غزل شروع ہوتی ہے جو اپنے دامن میں تفکر کے بہت سے زاویے رکھتے ہی جس میں فلسفہ اور خاص کر خدا ، انسان اور کائنات کارشتہ مقرر کرنا جیسے موضوعات غزل میں داخل ہوتے ہیں۔
1857ءکے بعد غزل کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس میں کلاسیکی عمل کے اثرات ہیں۔ یعنی رام پور کا دور ۔ اس دور میں داغ دہلوی، امیر ، جلال اور تسلیم جیسے شاعر شامل ہیں۔
اس کے بعد صحیح معنوں میں غزل کا جدید دور شروع ہوتا ہے۔ اور وہ ہے الطاف حسین حالی کادور اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی نے جدید غزل کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ حالی کی غزل کی بنیاد دراصل مقصدیت پر ہے۔اس کے بعد جو اہم نام جدید غزل کے حوالے سے ہمارے سامنے آتا ہے وہ اقبال کا ہے ۔ وہ حالی کی مقصدیت کو آگے لے کر چلتے ہیں لیکن وسیع معنوں میں۔ اقبال صرف اخلاقیات اور مقصدی مضامین تک محدود نہیں رہے۔ اقبال کی غزل کا مرکزی کردار مکالمے کرتا ہے ۔ فطرت سے، کائنات سے ، اور سب سے بڑھ کر اپنے داخل سے ۔ اب غزل ایک نئے تصور کے تحت آگئی ہے۔ انسان ، خدا ، کائنات اور فطرت کے رشتے اور پھیلی ہوئی کائنات سب اس میں موجود ہیں۔
اقبال کے بعداصغر ، فانی بدایونی ، حسرت موہانی ، جگر مراد آبادی اور یاس یگانہ چنگیزی جدید معمار ہیں۔ اصغر تصوف کے راستے اور فانی نے موت اور یاسیت کے راستے کائنات کی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جگر ایک رندی اور سرمستی کے راستے تلاش کرتا ہے۔ جبکہ حسرت موہانی ایک نیا تصورِ عشق سامنے لاتے ہیں ۔ انھوں نے غیر مادی تصور عشق کو مٹا کر مادی تصورِعشق دیا۔ اُس نے ایک مادی پیکر محبوب کو دیا جو اسی زمین پر ہمارے درمیان رہتا ہے۔ جبکہ یاس یگانہ چنگیزی حقیقت کے حوالے سے اور ذات کی انانیت کے حوالے سے اہم نام ہے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے ترقی پسندوں کا گروپ آتا ہے جس میں بہت سے شاعر ساحر، فیض ، مجروح، احمد ندیم قاسمی ، عدم ، جانثار اختر وغیر ہ شامل ہیںاور ترقی پسند تحریک تک غزل پہنچتی ہے۔ اس کے بعد 1747ءکے بعد کچھ شاعر ہندوستان میں رہ جاتے ہیں اور کچھ پاکستان میں ۔