Saturday 7 July 2012

تعویز






تعویز
 میرے خیال میں اصلاح کا درست طریقہ یہ ہے کہ اپنی بات کی بجائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی  بات کو سامنے رکھ دیا جائے اور فیصلہ مخاطب کے  اپنے ضمیر پر چھوڑ دیا جائے ۔ اسی سلسلے میں میری یہ ادنی سی کوشش ہے  ۔مجھے بچپن سے ہی مطالعے سے شغف رہا ہے اس لئے دن میں کچھ نہ کچھ پڑھتی ضرور ہوں،اس سلسلے میں لائبریریوں میں بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ایسے میں ہی ایک کتاب میری نظر سے گزری جس کا نام اعمال قرآنی تھا اس میں ایک ولادت میں آسانی کے لئے عمل تھا کہ جب ولادت کا وقت ہو تو اس تعویز کو رانوں پر باندھ لو ۔ہمارا عقیدہ ہے قرآن پاک کی توہین کرنا حرام ہے ، افسوس کی بات ہے یہ کتابیں ان کی لکھی ہوتی ہے جو شیخ الحدیث ہوتےہیں اسی طرح اکثر کتابوں میں سورتوں کے نقوش دیے ہوتے ہیں توآیات قرآنی کی تلاوت کے بجائے یہ نقوش  کہاں تک جائز ہیں؟؟؟ اسی طرح کچھ لوگ دھاگے یا کڑے پہن لیتے ہیں کہ ان پر دم کیا ہوا ہے کیا یہ ہندؤوں کے ایک تہوار راکھی بندھن سے مشابہت نہیں ہے؟؟اسی طرح کچھ لوگ تعویز دے کر اس کی اجرت طلب کرتے ہیں حالانکہ اللہ کے رسولﷺ نے قرآن بیچ کر کھانے کو منع فرمایا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ قرآن میں تو شفا ہے تو شہد میں بھی تو شفا ہے اس کو بھی گلے میں لٹکا لیں کیا ؟؟بےشک قرآن میں شفا موجود ہے مگر اس کا طریقہ ہے احادیث سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے تعویز لکھا ہو یا کسی کو دیا ہوبیٹا بیٹی  رزق سب اللہ دینے والا ہے ۔اللہ ہم سب کو سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
دعا اعوان